تحریر : عماد ظفر
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون رخصت ہو رہے ہیں اس لیئے اب نواز شریف کو بھی چلے جانا چائیے بہت سے اخلاقیات کے چیمپین آج کل یہ بحث کرتے دکھائی دیتے ہیں کچھ نے تو اتنی عجلت کا مظاہرہ کیا کہ ڈیوڈ کیمرون کے جانے کی وجہ پانامہ لیکس کو قرار دیا..کیمرون اپنے ملک کے عوام کی رائے کو یورپین یونین میں رہنے کے لیئے قائل نہ کرنے پائے اس لیئے انہوں نے جانے کا فیصلہ کیا.ہمارے ہاں نہ تو ابھی تک عوامی رائے حکومت کے مکمل مخالف ہے اور نہ ہی ابھی تک ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کو کسی بڑے اپ سیٹ کا سامنا ہوا ہے.اب محض اس لیئے کہ نواز شریف کی شکل کچھ افراد کو اچھی نہ لگے انہیں گھر تو بھیجا نہیں جا سکتا.
ویسے بھی فی الحال حکومت کے معاملات مریم نواز چلا رہی ہیں. اور پیپلز پارٹی کیلئے اگلے انتخاب میں پنجاب میں مریم نواز کا سامنا کرنا قطعا آسان نہیں.گو پیپلز پارٹی نے بڑی خاموشی کے ساتھ ایسٹیبلیشممٹ کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے اور حسین حقانی جیسے افراد کو اپنی جماعت سے بھی نکالا ہے لیکن فی الحال پیپلز پارٹی کیلئے پنجاب اور مرکز کی حکمرانی ہنوز دور است. راقم نے کئی ماہ پہلے بتا دہا تھا کہ مریم نواز مسلم لیگ نون کا نیا چہرہ ہیں.اب نواز شریف صحت کی خرابی کا عذر بنا کر انہیں اپنی مدت حکمرانی میں ہی حکومتی امور اور رموز سے بآسانی روشناس کروا سکتے ہیں.
یوں جناب عمران خان اور اعتزاز احسن جیسے افراد کی مہربانی کی بدولت مریم نواز 2018 کے انتخابات سے قبل ہی ایک لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آ جائیں گی. پانامہ لیکس اب ویسے بھی پرانا ہو چکا اور خود ملک ریاض بہت سے میڈیا کے پارسا ؤں لے نام بھی کچھ رازو نیاز انٹرنیشنل میڈیا پر لیک کرنے لگے ہیں. دوسری جانب محترم عمران خان ابھی تک پنجاب میں اپنی جماعت کی جڑیں مضبوط کرنے کے بجائے کبھی ایسٹیبلیشمنٹ تو کبھی پیپلز پارٹی کے کاندھے پر سوار ہو کر وزیر اعظم ہاوس تک پہنچنا چاہتے ہیں جو کہ ایک ناممکن کام ہے. ایسے میں سیاسی منظرنامہ ہرچند بھی تبدیل ہوتا دکھائی نہیں دیتا. بلکہ شریف برادران کی حلقوں کی سیاست کے ماہرانہ گٹھ جوڑ سے سیاسی طور پر ان کی پوزیشن مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے جو خود ایسٹیبلیشمنٹ کیلئے باعث فکر ہے.
رہی بات انگلستان اور امریکہ کی اخلاقی مثالیں دینے والوں کی تو انہیں یہ بھی دھیان میں رکھنا چائیے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں حکومتیں اخلاقیات کے دم پر نہیں بلکہ سیاست کے داو پیچ کے خم پر جاتی ہیں. نواز شریف کو دراصل مضبوط کرنے میں اس مصنوعی اخلاقی بریگیڈ کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جو محض بغض نواز کی وجہ سے ان کاموں یا منصوبوں کو بھی ہدف تنقید بناتا ہے جو کہ عوام کی فلاح سے متعلق ہوتے ہیں یوں نواز شریف کا ووٹ بنک اسی طرح مضبوط رہتا ہے. ذرائع کے مطابق مریم نواز اس وقت حکومتی معاملات چلانے میں پیش پیش ہیں اور اب جب اگلے انتخابات ہوں گے تو باقی جماعتوں کی طرح مسلم لیگ نون بھی یہ دعوی کر سکے گی کہ دیکھئے ہمارے پاس نوجوان قیادت اور نیا چہرہ ہے. یوں نوجوان تبدیلی اور انقلاب کے منجن بیچنے والوں کو کسی نئے منجن بیچنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے.
فی الحال پانامہ لیکس سیاسی طور پر پنکچر ثابت ہوا ہے اور ویسے بھی جس حمام میں سب ننگے ہوں یہاں جہاں عوام ووٹ محض ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر یا برادری کی بنیاد پر دیتے ہوں وہاں کرپشن کے سکینڈل حکومتیں گرانے میں کامیاب نہیں ہوا کرتے. صدر ممنون حسین نہ تو فاروق لغاری ہیں اور نہ ہی اٹھاون ٹو بی کے مالک. اس لیئے انہیں استعمال کرنا بھی نا ممکن ہے.عدلیہ نے واشگاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ سیاسی دنگل اس کا کام نہیں جبکہ راولپنڈی والے نواز شریف سے زیادہ طالبان اور افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال میں دلچسپی رکھتے ہیں. جو لوگ حمزہ شہباز اور مریم نواز کو لڑوا کر کسی معجزے کی توقع رکھتے تھے ان کیلئے بھی مایوسی ہی ہے کہ شریف خاندان میں یہ مسئلہ بھی طے پا گیا.یوں اب نواز شریف وزارت عظمی پر فائز رہتے ہیں یا مریم نواز یہ منصب سنبھالتی ہیں راوی دونوں صورتوں میں مسلم لیگ نون کی سیاسی بقا دوارے چین ہی چین لکھتا ہے.رہی بات عام لوگوں کی اور ان کے حالات زندگی کی تو راوی نے آج تک ان بیچاروں کو پوچھا ہی کہاں جو اب پوچھے گا.
تحریر : عماد ظفر