تحریر: ھدیٰ عقیل، الریاض
انگریز برصغیر میں تجارت کی غرض سے آئے اور وہاں کے مالک بن بیٹھے، وہ مسلمانوں کی حکومت کی بنیادوں کوآہستہ آہستہ کھوکھلا کرتے چلے گے مسلمانوں کی چار سو سالہ حکومت کو کرچی کرچی کرتے ان کو زیادہ وقت نہ لگا اور بہت جلد وہ برصغیر کے تمام معاملات کی باگ ڈور سنبھالتے ہوے برصغیر پرقابض ہو گئے۔
انگریزوں نے ہمشہ اپنے مفاد کے بارے میں سوچا اور وہ اپنے فائدے کے لیے کسی دوسرے کو استعمال کرتے ہوے کسی قسم کی دقت محسوس نہیں کرتے اور اپنی اس فطرت کو برقرار رکھتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں کو اپنے اخلاقی معیار سے گرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے ملک میں نافذقوانین پر ہر ممکن طریقے سے عمل کرتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کو آج بھی آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے قر ضہ لینے کے لیے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک برطانوی اخبار میٹرو میں مسلمانوں کے خلاف ایک کالم لکھا گیا تھا جس کا مقصد مسلمانوں کے جذبات کو ہوا دینا تھا اور مسلم کمیونٹی کی تذلیل کرنا تھا اور وہ اپنی اس سازش میں کامیاب بھی ہوئے، جب سوشل میڈیا پراس کالم نے مقبولیت حاصل کی تو انگریزوں نے یہ کہہ کر اس کالم کے حق میں اپنے نظریات کا اظہار کیا کہ ہم بہت سارے مسلمانوں کو جانتے ہیں جو لوگوں کو نہیں مارتے۔
اس کے بدلے میں وہاں موجود مسلمانوں نے ان کے ان نظریات کا جواب اینٹ کا جواب پتھر کی طرح دیا، انگریز بظاہرتو مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں لیکن یہ سب ان کی سیاسی چالوں کا حصہ ہے، اگر ہم یورپی ممالک اور ان میں بسے انگریزوں کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہونے میں صرف چند پل لگیں گے کہ یہ لوگ کبھی مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتے۔اخبارات و جرائد کے علاوہ بھی یہ مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے اپنے ملک میں مختلف دکانوں میں مسلمانوں کے خلاف خبریں لگاتے رہتے ہیں اور جب یہ سب کرنے کے باوجود ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بھڑکی ہوئی آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی تو ان کی حکومت حلال کھانے پر پابندی لگا دیتی ہے۔
یورپ کے بیشتر ممالک میں ان خواتین کو اشیائے ضرورت دینے سے انکار کر دیا جاتاہے جو نقاب میں ہوتی ہیں، ان سب بے عزیتوں کے باوجود مسلمان اپنے ملک کو فائدہ دینے کی بجائے یورپ ممالک جانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، یہ بے عزتی کافی قابلِ غور ہے مگر پھر بھی ہماری نوجوان نسل کا رجحان ان ممالک کی طرف ہی رہتا ہے ہماری نوجوان نسل مغرب کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے، ہمارے کھانے، ہماری تعلیم ، ہمارا لباس ، ہمارے رسم و رواج مکمل طور پر مغربی رنگ میں رنگے جا چکے ہیں اوراس پر انگریزوں کا ا پنے اور مسلمانوں میں فرق پیدا کرنا کافی افسوس ناک بات ہے۔
ہمارے نبی ﷺنے حج کے موقع پر فرمایاتھا،’’کسی گورے کو کسی کالے پر ، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقوی ٰکے‘‘،نبی ؐ کے فرمان کے مطابق ا سلام میں لوگوں کے درمیان فرق کرنے کی ممانعت ہے، جن اخلاقی قوانین کومغربی ممالک اپنی تہذیب کا حصہ قرار دیتے ہیں ان تمام قوانین کے بارے میں آگاہی ہمیں قرآن پاک میں واضح طور پر مل جاتی ہے۔
مسلمانوں کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں یہودیوں نے بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی ، ہٹلر ایک سیاسی مفکر تھا جس نے یہودیوں کی مکاریوں کو دو جملوں میں قلم بندکر دیا۔ وہ کہتا ہے کہ ’’میں چاہتا تو دنیا کے تمام یہودیوں کو مارسکتا تھا مگر میں نے کچھ کو اس لیے چھوڑاتاکہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ میں نے یہودیوں کوکیوں مارا‘‘۔ لیکن اب ایسا نہیں ہو گا ، ہما ری آج کی نسل آواز دبانے میں نہیں آواز اٹھانے میں یقین رکھتی ہے مجھے پوری امیدہے کہ اب وہ وقت آنے میں دیر نہیں جب ہم غلامی کی زنجیروں کواتارپھینکیں گے اور ایک بار پھر تاریخ کودہرایا جایا گا، مسلمان پھرایک آزاد اور مستحکم قوم کے طور پر ابھریں گیں ، بس ا سلا م کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کی دیر ہے۔ ہٹلرکے ایک تاریخی جملے کے ساتھ اختتام کروں گی، ’’جب کوئی کسی مشکل کے بنا جیتتا ہے تو وہ صرف فتح ہوتی ہے لیکن جب کوئی بہت ساری مشکلات کے ساتھ جیتتا ہے تو وہ تاریخ لکھتا ہے۔
تحریر: ھدیٰ عقیل، الریاض