پیرس (اے کے راؤ) یورپین یونین کے قیام سے ہی اتحاد مشکلات کا شکار رہا ہے ممبر ممالک کی معاشی صورتحال کے بعد دس لاکھ سے زائد محاجرین کی یورپ میں آمد اور ان کے لیے کوئی قابل عمل فارمولا تحہ نہ ہونے کے باعث یوپین یونین کا اتحاد خطرے میں ہے۔
ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ اس سلسلے میں منقسم ہے۔ کچھ وزراءکی خواہش ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کا حصہ رہے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کو خیر آباد ہی کہہ دینا ملک کے مفاد میں ہے۔ زاتی طور پر ڈیوڈ کیمرون یورپین یونین میں ہی رہنا چاہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کو چھوڑنا اندھیرے میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہوگا۔
ملک کی وزیرِ داخلہ ٹریسا مئی ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ کھڑی ہیں جو یورپی یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ہیں جبکہ وزیرِ قانون مائیکل گوو اس خیال سے متفق ہی نہیں بلکہ وہ یورپی یونین کو چھوڑنے کے حق میں ووٹ ڈالنے کی مہم چلائیں گے۔
موجودہ َصورتحال میں برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے یورپی یونین کا حصہ رہنے یا اس سے نکل جانے سے متعلق ریفرنڈم رواں سال 23 جون کو کروانے کا اعلان کیا ہے ڈیوڈ کیمرون کا اس موقعے پر کہنا تھا کہ اس ریفرنڈم میں ’ہم اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کریں گے‘ ڈیوڈ کیمرون نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ یورپی یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیں۔
معاشی اعتبار سے بڑے ممالک کے وزرائے خزانہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر برطانیہ یورپی یونین سے نکل جاتا ہے تو یہ عالمی معیشت کے لیے ایک بڑا ’دھچکا‘ ہوگا برطانوی وزیر خزانہ جارج اوسبورن نے ریفرنڈم کو انتحائی سنجیدہ مسئلہ کرار دیا ہے۔
تاہم یو کے انڈپینڈنس پارٹی کے نائجل فراج برطانیہ کو یوپین یونین سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ اس وقت ڈیوڈ کیمرون کی حکومت کے سخت ناقد ہیں ۔ اور وہ 23 جون کے ریفرنڈم میں کیمرون کو ٹف ٹائم دینگے۔
دوسر جانب یورپی یونین کے اجلاس میں یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ڈسک نے برطانیہ کو خصوصی درجہ دینے کا اعلان کیا ہے ۔ڈونلڈ ڈسک کا کہنا تھا مجھے یقین ہے کہ برطانیہ کو یورپ کی اور یورپ کو برطانیہ کی ضرورت ہے لیکن آخری فیصلہ برطانوی عوام کے ہاتھ میں ہے۔