تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل
چوبیس جون بروز جمعہ برطانیہ میں ہونے والے ریفرینڈم نے برطانوی حکومت سمیت پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔سب تجزیے سب اندازے غلط ثابت کر دیے۔ریفرینڈم کے نتائج آنے کے بعد دنیا حیران رہ گئی کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔جی ہاں ہو سکتا ہے برطانوی عوام نے ثابت کر دیا۔قارئین آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ ریفرینڈم برطانیہ کا یورپی یونین کا رکن رہنے یا نہ رہنے پر کروایا گیا۔حکومت یہ ریفرینڈم چاہتی تو نہیں تھی۔مگر مخالفین نے ریفرینڈم کے لئے خوب تحریک چلائی۔حکومت نے تنگ آ کر سوچا کہ ریفرینڈم کروا کر ان سے جان چھڑوا لیں برطانوی حکومت ی یہ سمجھتی تھی کہ برطانوی عوام یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دے گی۔
مگر مخالفین لوگوں کے دلوں میں علیحدگی کے تاثزات ڈالنے میں کامیاب ہو گئے۔مجھ سمیت بہت سے لوگ مختلف نیوز چینلز پر دیکھ رہے تھے کہ تجزیہ کار اپنی رائے میں کہہ رہے ہیں کہ برطانوی عوام یورپی یونین کے ساتھ رہنے کو ترجیح دے گی۔جب بتایاگیا کہ باون فیصدلوگ یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دیں گے اور اڑتالیس فیصد علیحدگی کے لئے۔تب عوام اور ریفرینڈم پر نظر رکھنے والوں کو مقابلہ ٹف لگا۔پھر بھی لوگ سمجھتے تھے علیحدگی مشکل ہے۔مگر جب نتائج آئے توفیصلہ اس کے برعکس ہوا۔سب اعداد و شمار الٹ ہو گئے۔باون فیصد علیحدگی اور اڑتالیس فیصد ساتھ رہنے والوں کے ووٹ نکلے۔
یوں برطانوی حکومت یورپی یونین پورے یورپ سمیت بہت سے لوگوں کے اوسان خطا ہو گئے۔برطانیہ نے تینتالیس سال بعد یورپی اتحاد کی سب سے بڑی اور اہم تنظیم یورپی یونین سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔لندن سکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ کے لوگوں نے یونین کے حق میں جبکہ مشرقی انگلینڈ ویلز اور مڈلینڈ کے لوگوں نے یونین سے علیحدگی کے لئے ووٹ دیئے۔مختلف پارٹیز بھی بھٹی ہوئی نظر آئیں۔اس کے ساتھ ہی یونین کے حامی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ عوامی رائے کی قدر کرتے ہیں اور اب ایک نئی قیادت میں ہی یونین سے بات چیت کا آغاز ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ علیحدگی کے معاملات انجام نہیں دے پائیں گے اکتوبر تک نیا وزیر اعظم چن لیں۔بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ کیمرون نے مستعفی ہو کر اچھا فیصلہ کیا ۔کیونکہ اپنے نظریات کے برعکس چلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔علیحد گی کی وجوہات بہت سی ہیں چند قابل زکر ہیں۔
حکومتی مخالفین نے یا یہ کہنا بجا ہوگا یونین کے مخالفین نے اپنی کمپین خوب چلائی اور اس میں کامیابی حاصل کی۔وہ لوگوں کویہ سمجھانے میں کامیاب ہو گئے کہ برطانیہ علیحدہ ہو کر زیادہ بہتر طریقے سے ترقی کر سکتا ہے اور پوری دنیا سے اچھے تعلقات استوار کر سکتا ہے۔اکثر بوڑھے و پرانے برٹش لوگوں نے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا۔ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ رقم کی ایک بڑی مقدار فنڈز کی مد میں یونین کو دیتا ہے وہی رقم علیحدگی کے بعد اپنے اوپر خرچ کر سکے گا۔باہر سے یورپین لوگ برطانیہ میں کاروبار پر براجمان ہیں۔برطانیہ کے لوگ اپنی ایک آزادانہ ریاست چاہتے ہیںیورپین مداخلت سے پاک۔پرانے برطانوی لوگ خوف کا شکار تھے وہ سمجھتے تھے کہ یونین کے ساتھ رہ کر وہ نقصان میں ہیں وہ علیحدگی میں ہی فائدہ سمجھتے ہیں۔مگر تجزیہ کاروں نے کہا کہ سب کچھ اس کے برعکس ہوگا۔برطانیہ اب مشکلات سے دو چار ہوگا۔اس ریفرینڈم کے نتیجے میںپائونڈ ڈالر کے مقابلے اکتیس سال کی کم ترین سطح پر آگیا۔تیل کی قیمتیں گر گئیں۔
سونے کے بھائو چڑھ گئے۔بعض تجزیہ کاروں نے تو سلطنت برطانیہ کے ٹکڑے ہونے کا خطرہ ظاہر کیا۔کیونکہ سکاٹ لینڈ جہاں علیحدگی کی پہلے ہی سے مضبوط تحریک موجود تھی ایک بار پھر آزادی کی کوشش کر سکتے ہیںاور ایسا ہی شمالی آئر لینڈ والے بھی کر سکتے ہیں۔ریفرینڈم کا رزلٹ آ گیا ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ برطانیہ آج ہی یورپی یونین سے الگ ہوگیا ۔ابھی مکمل علیحدگی میں دو سال بعض کے نزدیک سات سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔مالی و افرادی معاملات کو نپٹانے میں کافی عرصہ لگے گا۔برطانوی ریفرینڈم نے ثابت کر دیا ہے کہ برطانیہ جمہوریت کی ماں ہے۔بلا شبہ عوام نے اس لئے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا کہ اپنے ملک کی قسمت بدلی جا سکے۔جو ہمارے لئے ایک مشعل راہ ہے۔
ہر کام کے دو پہلو ہوتے ہیںاور برطانیہ کے یونین سے علیحدگی کے بھی دو پہلو ہیں۔یا تو بڑی مشکلات کا شکار ہو جائیں گے یا پھر اپنی ہمت و کوشش سے دنیا میں ایک نئے ولولے اورنئی سوچ کے ساتھ ابھریں گے۔اگر برطانیہ محنت و ازم سے کام لے تو یورپ سے بہت آگے نکل سکتا ہے۔اگر اسی دوران زرا سی بھی ہٹ دھرمی دکھائی تو یورپ سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔برطانوی ریفرینڈم بلا شبہ دنیا کی تاریخ کا ایک بڑا ریفرینڈم ہے۔جس نے ایک نئی روایت کو جنم دیا ہے اس سے پہلے کوئی بھی وطن کسی تنظیم سے باہر نہیں نکلا بلکہ مختلف ملکوں کی کوشش ہوتی ہے کہ مختلف تنظیموں کا حصہ بننے ۔مگر برطانیہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ان کا حصہ بنے بغیر بھی نمبر ون بنا جا سکتا ہے۔
تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل