بر طانیہ ( ایس ایم عرفان طاہر سے ) دنیا ئے علم و ادب کا ایک نایاب اور بے مثال نام ڈا کٹر اقتدار کرامت چیمہ آبائی گا ئو ں لیل پور (فیصل آبا د ) شعبہ زراعت اور کھیتی باڑی سے وابستہ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ابتدائی تعلیم دیہات کے ٹاٹ سکول میں حاصل کی اور پھر والدین نے اچھی تعلیم و تربیت کے لیے لاہور داتا کی نگری کا رخ کیا ایف سی کالج لا ہور سے بی اے کے امتحان میں پنجاب یو نیورسٹی میں اول پو زیشن کے ساتھ گو لڈ میڈل حاصل کیا۔
پھر اسکے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اور ایم فل میں اعلیٰ کا ر کردگی پر گو لڈ میڈل حاصل کیے 2002 کوایجو کیشن میں کا رہا ئے نمایا ں سرانجام دینے پر اعزازی سبقت صدارتی تمغہ سے نوازے گئے 2008 میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے نیشنل ایوارڈ فار ایجوکیشن اینڈ ریسرچ دیا ، پنجاب یو نیورسٹی لا ہو ر میں ڈپٹی رجسٹرار اور وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں ڈا ئر یکٹر ڈی زاسٹر ریلیف مینجمنٹ خدما ت سرانجام دیں ، نیوورلڈ آرڈر پر تفصیلی مقالہ پیش کرتے ہو ئے انٹر نیشنل ریلیشن میں ڈاکٹریٹ یعنی PHD برطانیہ یو نیورسٹی آف گلو سٹر شاعیرسے مکمل کی ،دہشتگردی اور انتہا پسندی کے حوالہ سے کئی مقالاجات بھی لکھے کالج آ ف سنٹرل انگلینڈ برمنگھم اور مارک فیلڈ انسٹیٹیوٹ آف ہائیر ایجوکیشن لیسٹرمیںبھی بطور رجسٹرارکام کیا۔
حالیہ انسٹی ٹیوٹ آف لیڈر شپ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ بر طانیہ(حسنات کالج ) کے ڈائر یکٹر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں دیا ر غیر میں ٥ سالہ سکونت کے دوران تعلیم و تربیت کے حوالہ سے آپ کی خدمات لازوال ہیں ہسٹری ، انٹرنیشنل لاء اینڈ ریلیشن پر خاصا عبور رکھتے ہیں ڈاکٹر صاحب کو انسائیکلوپیڈیا آف ہسٹری کہا جا ئے تو غلط نہ ہوگا ، شعبہ تعلیم اور وطن عزیز کے لیے ان کی گراں قدرخدما ت کسی اپنے پرائے سے پو شیدہ نہیں موجود حالات کے تناظر میں ڈا ئر یکٹر انسٹیٹیوٹ فار لیڈر شپ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ڈاکٹر اقتدار کرامت چیمہ نے نوجوان صحافی و معروف کالم نگار ایس ایم عرفان طا ہر کو خصوصی انٹرویو دیتے ہو ئے کہا کہ اسلامک انتہا پسندی اور دہشتگردی کی بات ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔
کیونکہ اسلامی تعلیمات اور اسکی اکثریت نے کبھی بھی انتہا پسندی ، دہشتگردی ، بد امنی اور شر انگیزی کی اجازت نہیں دی ہے اسلام کئی فرقوں اور گروہوں پر مشتمل مذہب ہے ہر ایک کا انفرادی عمل اس کی تعلیمات نظریات اور عقائد سے منصوب نہیں کیا جا سکتاہے ۔ اگر کوئی نام نہاد مسلمان ہی ہو اور وہ کوئی خلاف شرع یا منفی نقل و حرکت اپناتا ہے تو اس پر اسلام کو ہر گز موردالزام نہیں ٹھہرانا چا ہیے ہے کیونکہ وہ کسی ایک شخص کا انفرادی عمل ہے ناکہ اسلام یا مذہب کا ۔ گذشتہ روز ایک شخص نے ناروے میں عیسائی ہو کرتقریباََ 74 انسانی جانوں کو ضائع کیا تو اسے عیسائی انتہا پسندنہیں کہا گیا بلکہ اسے درندہ اور جنونی قرار دیا گیا امریکہ میں فلوریڈا میں رہنے والے ایک منفی سوچ کے مالک پا دری نے قرآن پاک کو جلا دیا تو اسے بھی انتہا پسندی کا نام نہیں دیا گیا تو پھر محض کسی گمراہ کن سوچ اور عقائد سے وابستہ بے راہ روی کا شکار مسلمان کے عمل کو اسلامی انتہا پسندی سے تعبیر کرنا نا انصافی ہے اجتماعی طور پر کسی مذہب میں خرابی نہیں ہوسکتی۔
بلکہ انفرادی سطح پر کوئی بھی غلطی یا منفی عمل کا شکار ہوسکتا ہے ۔ اجتماعی سطح پر دین اسلام اور مسلمان امن پسند ہیں دہشتگردی ، انتہا پسندی اورشر انگیزی کی نہ اجازت دیتے ہیں اور نہ ہی اسے پسند کرتے ہیں جو کسی ایک مسلمان کے کسی خاص منفی عمل یا نقل و حرکت کو دیکھ کر پو رے مذہب کو تنقید کا نشانہ بنا تے ہیں درحقیقت وہی لوگ اسلامو فوبیا کا شکار ہیں جو راستہ اجتماعی سطح پر بھلائی اور اچھا ئی کا پیغام دیتا ہے وہ ٹھیک ہے یا جو انفرادی سطح پر غلط دکھائی دیتا ہے فیصلہ ایک ذی شعور انسان خود باآسانی کرسکتا ہے۔ ان نامساعد حالات کے تناظرمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام تر حکومتیں اور بیرونی طا قتیں مسلمانوں کو اعتماد میں لیکر ان چند منفی انفرادی سوچ سے منسلک عوامل کو ٹھیک کر سکتی ہیں۔
جن کی وجہ سے دنیا کا امن تباہ ہو رہا ہے اگر مسلمان اکثریت جو امن و محبت اور روادری پر کامل یقین رکھتی ہے انکے ساتھ مل کر اتفاق و اتحاد کے ساتھ دہشتگرد سوچ اور خیالات کو نہ روکا گیا تو اس سے ان قوتوں کو مزید تقویت حاصل ہو گی ۔ خلافت ، اسلامی ریاست اور شریعیت ایسی منفی نقل و حرکت کی ہرگز اجازت نہیں دیتی جو انتہا پسند تنظیموں نے اپنا رکھی ہیں ۔ اسلام میں شریعیت اور خلافت کا ایک با قا عدہ قانون اور اصول وضح کیا گیا ہے دولت اسلامیہ آئی ایس آئی ایس کے سربراہ ابو بکر البغدادی نے جو طریقہ اپنا رکھا ہے یہ شریعیت اور خلافت سے متصادم ہے یہ ان شر پسند عنا صر کی خود ساختہ خلافت ہے جو انہوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کی خاطر دنیا میں پھیلارکھی ہے خلافت کے نام پر بیگناہ افراد کا قتل ، عورتوں بچو ں اور بوڑھوں کو ہراساں کرنا عسائیوں ، یزیدیوں اور پھر مسلمان اکثریت کو نشانہ بنانا اور انکے خلاف جنگ لڑنا کہاں کا اسلام ہے مسلم ریا ست میں رہنے والے غیر مسلم ذمیوں کو مارنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے یہ سب خلافت اور شریعیت کے منافی عمل ہیں جو آئی ایس آئی ایس کے سربراہ ابوبکر البغدادی اور اسکے پیرو کاروں نے اپنا رکھے ہیں یہ لو گ خود کو سنی عقیدہ کہتے ہیں۔
پھر صحابہ کرام ، اہلبیت اور صوفیاء کے مزارات کو شہید کرتے ہیں یہ اصل میں خوارج گروہ ہیں جن کے حوالہ سے رسول اکرم ۖ نے پہلے سے پیشن گوئی کردی تھی ۔بلا شبہ عالمی طا قتیں مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کررہی ہیں ظا ہری اور با طنی طور پر تمام طاقت اور قوت صرف کی جا رہی ہے لیکن مخالفین پر تنقید برائے تنقید کا اصول اپنانے کی بجا ئے ہمیں اپنی صفوں کو بھی درست کرنا ہوگا اور جو خامیاں ہما رے اپنے اندر موجود ہیں پہلے انکو درست کرنا ہوگا۔ اگر آج بھی مسلمان خدا اور رسول ۖ کے نام پر متحد و منظم ہو جا ئیں تو کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
عراق اور شام میں جو کشیدگی اور مسائل دکھائی دے رہے ہیں ان کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہاں سے قیادت ختم کردی گئی ہے کسی ملک میں جب قیادت کا خلاء پیدا ہوتا ہے تو وہاں پر دہشتگردی ، انتہا پسندی ، بد امنی سمیت کئی فتنے جنم لیتے ہیں جب امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے باقاعدہ طور پر قیادت کا خاتمہ کردیا تھا تو اسکے بعد انہیں چا ہیے تھا کے وہاں ماحول کو کنٹرول میں رکھتے اور نئی قیادت کھڑی کردیتے لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے جس کی وجہ سے آج یہ مسائل دکھائی دے رہے ہیں اسی وجہ سے تشدد پسند گروپوں کو موقع مل گیا ہے اور وہ اقتدار تک رسائی حاصل کرنے اور اپنا قبضہ جما نے کے لیے اپنی قوت کو منجمد کرنے میں مشغول ہیں انکی دونوں اطراف میں اگر گہرائی سے دیکھا جا ئے آئی ایس آئی ایس ، القاعدہ ہو یا طالبان محض اقتدار تک رسائی حاصل کرنے اور اپنی معاشی قوت بڑھانے کے لیے ساری تگ و دو جاری رکھے ہو ئے ہیں۔
الزرقاوی ، ایمن الظواہری ، ابو بکرالبغدادی اپنی برائیوں اور غلطیوں کو چھپانے کی خاطر خلافت اور شریعیت کی آڑ میں لوگوں کو گمراہ کرنا چا ہتے تھے انکا ہر عمل اسلام کے منافی ہے ۔ عالمی سطح پر جب بھی کسی مخالف کو نیچا دکھا نے اور نقصان پہنچا نے کے لیے عسکری گروپس ترتیب دیے گئے ہیں تو انکی بدولت ہمیشہ تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا سوویت یو نین کو توڑنے کے لیے آج کے انہی طا لبان دہشتگردوں کو مجا ہد اور عسکریت پسند کہہ کر متعارف کروایا گیا اپنے عزائم کی تکمیل کے بعد وہی عسکریت پسند کنٹرول سے با ہر ہو ئے اور اقتدار مانگنے لگے تو انہیں دہشتگرد اور انتہا پسند کہا جا نے لگا لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ آج جیسے آئی ایس آئی ایس دولت اسلامیہ اور عسکریت پسند گروپوں کوتوڑنے کی خاطر پھر امریکہ ان کے مخالف عسکری گروپ تیا ر کرنے کی جستجو میں مصروف عمل ہے یہ نقصان دہ بات ہے۔
امریکہ اور سپر طاقتوں کو چا ہیے کہ براہ راست ایسے دہشتگرد اور انتہا پسند عنا صر کے خلاف جنگ لڑیں اور انکا خاتمہ کریں ورنہ یہ سلسلہ جوں کا توں چلتا رہے گا ۔ کسی بھی ملک میں ایک عسکری گروپ کو دوسرے عسکری گروپ سے لڑا نے سے معاملہ حل نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اندر جتنے مدارس جنہوں نے طالبان پیدا کیے وہ ضیاء الحق اور بے نظیر کے دور میں قائم ہو ئے اور طا لبان کرائے کے قاتل تھے جنہیں سوویت یونین توڑنے کے لیے استعما ل کیا گیا اور پھر انہیں مخالفین نے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کے لیے خریدنا شروع کردیا بھارتی را نے سب سے زیادہ طالبان کو ہر سطح پر سپورٹ فراہم کی اور انہیں پاکستان کے خلاف تحریک طالبان پاکستان کی صورت میں ایک منظم گروہ قائم کردیا طا لبان اچھے یا برے نہیں ہیں بلکہ یہ بے راہ روی اور گمراہ کن سوچ کے حامل افراد ہیں جن کے ساتھ کوئی بھی ہمدردانہ رویہ یا نرمی اپنانا بیکار ہے۔
جو لوگ پاکستان جیسے ملک میں شریعیت اور خلافت نافذ کرنے کی بات کریں تو انہیں بتانا چا ہیے کہ پاکستان کی اساس اور آئین اسلام پر مبنی ہے ،انتہا پسندی اور دہشتگردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ان کے خلاف موجودہ حالات کے تناظر میں مسلح افواج پاکستان کا آپریشن ضرب عضب درست اقدام ہے یہ اس وقت تک جا ری رکھا جا ئے جب تک آخری دہشتگرد کا قلعہ قمعہ نہ ہو جا ئے ۔ ہمیں تحریک طا لبان پاکستان کے مسلمان ہو نے پر شک نہیں لیکن جو عمل انہوں نے اپنا رکھا ہے اسکا دین اسلام یا مسلمان سے کوئی واسطہ نہیں ہے بیگناہ پاکستانیوں کی شہادتیں 60 ہزار سے بھی تجاوز کرچکی ہیں مساجد کے اندر خود کش حملے کیے گئے گرجا گھروں اور دیگر عبادت گا ہوں کو نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ سانحہ پشاور میں بے شمار معصوم بچوں کو سفاکانہ انداز میں شہید کردیا گیا وہ لوگ جو ان سب عملوں کا سبب بنے وہ مسلمان تو کیا انسان کہلا نے کے بھی قابل نہیں ہیں۔
خراسان کے نام پر جو ریاست قائم کرنے کی بات کی جا رہی ہے اس کو اقوام عا لم تو کیا عالم اسلام بھی تسلیم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تو پھر ان لوگوں کو سوچ لینا چا ہیے کہ وہ کس سوچ اور نظریات کو تقویت پہنچا نے میں مصروف ہیں جن کا دنیا سے کوئی تعلق نہیں اور جن کے لیے مہذب معا شروں میں کوئی گنجائش نہیں ہے القا عدہ اور انتہا پسند تنظیموں نے گذشتہ دس سال سے پوری دنیا کو یرغمال بنا رکھا ہے لیکن اب اسکے زوال کا وقت شروع ہوگیا ہے ۔ 9/11 کے بعد دنیا میں مختلف حق خود ارادیت کی تحریکوں کو دہشتگردی اور انتہا پسندی سے جوڑا جا رہا ہے اس تناظر میںالقا عدہ برصغیر کا قیام اور تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ تعاون کے حوالہ سے انکا اعلان بہت منفی اقدام ہے ایسی تحریکوں کو آڑ بنا کر دہشتگرد تنظیمیں اپنا مقصد پورا کرنا چاہتی ہیں اس حوالہ سے جدو جہد آزادی سے منسلک افراد کو چا ہیے کہ اس سوچ کو مسترد کرتے ہو ئے اپنے لوگوں کو شعور و آگہی دیں۔
مسئلہ کشمیر کا حل عالمی سطح پر صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے اسکے لیے کوئی بھی عسکریت پسندی یا منفی راستہ نقصان دہ ہے ، مسئلہ کشمیر کے پر امن اور دیرپا حل کے لیے کشمیری قیادت کو اپنا ایک موقف اختیار کر نا ہو گا حق خودارادیت کے نقطہ پر اتحاد کو فروغ دینا ہو گا کشمیری قیادت کو چاہیے کہ اگر وہ اپنے مسئلہ کے ساتھ مکمل طور پر مخلص ہیں تو پاکستان پر یہ دبائو ڈالیں کہ شملہ معاہدہ جو بھٹو نے اندرا گا ندھی سے کیا اورپھر معاہدہ کراچی فلفور ختم کیا جا ئے جن کی وجہ سے عالمی برادری قانونی طور پر پاکستان ، بھارت اور چین میں تقسیم کشمیر ی ریاست کے مسئلہ کو حل کرانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی ہے ۔ بین الاقوامی دنیا کو یہ بار آور کروایا جا ئے کہ کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی پامالی میں بھارت ملوث ہے اور جو کشمیری نما ئندے یو رپین یو نین اور برطانوی پارلیمنٹ میں موجود ہیں وہ اس مسئلہ کے حوالہ سے موئثر انداز میں لابنگ کریں۔
انہو ں نے برطانیہ میں مقیم با العموم مسلم امہ اور با الخصوص جواں سال نسل پر یہ زور دیا کہ وہ اپنی تعلیمی قابلیت اور ہنرمندی کو بڑھانے میں مثبت کردار ادا کریں معاشی طور پر خود انحصاری کو اپنایا جا ئے اور نوجوان نسل میں مثبت سرگرمیوں کو فروغ دیا جا ئے اسلام کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں تمام تر مسائل اور مشکلا ت کا خاتمہ ممکن ہے ۔ نوجوان نسل کسی ابو بکر البغدادی ، ملا عمر ، ملا فضل اللہ اور ان کے پیروکاروں کو اپنا آئیڈیل بنا نے کی بجا ئے رسول اللہ ۖ اور انکے صحابہ کرام کو اپنا رول ماڈل بنائیں اس مملکت میں رہتے ہو ئے دوسرے مذاہب اور اقوام سے بہتر تعلقا ت استوار کریں اور جو لو گ ہمیں اپنے حقیقی افکار ، نظریا ت اور عقائد سے بھٹکانا چا ہتے ہیں ان سے دور ی اختیار کریں۔