تحریر : سید توقیر زیدی
برطانوی عوام نے بالآخر اپنا فیصلہ سنا دیا اور بہت معمولی اکثریت سے برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں فیصلہ دیدیا۔ 51.9 فیصد ووٹ نکلنے کے حق میں اور 48.1 فیصد ووٹ رہنے کے حق میں آئے۔ اتنی معمولی اکثریت کا فیصلہ بھی اسی طرح لاگو ہوگا جس طرح بھاری اکثریت کے فیصلے ہوتے ہیں۔ ریفرنڈم کے نتیجے پر کسی جانب سے کوئی حرف گیری نہیں کی گئی۔
وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون چاہتے تھے کہ برطانیہ یونین میں رہے لیکن جب عوام کا فیصلہ ان کی رائے اور خواہش کے خلاف آگیا تو انہوں نے وزارت عظمیٰ چھوڑ دینے کا بھی فیصلہ کرلیا، اب انہی کی پارٹی میں سے کوئی نیا لیڈر یہ عہدہ سنبھالے گا جو یونین سے نکلنے کے حق میں ہوگا۔ ابھی تک یہ تو معلوم نہیں کہ قبل از وقت انتخابات کی نوبت آئے گی یا نہیں، تاہم اگلے انتخابات جب بھی ہوں اس ریفرنڈم کی پرچھائیں بھی ان پر نظر آئیں گی۔ عین ممکن ہے کنزرویٹو پارٹی اگلا پارلیمانی انتخاب نہ جیت سکے۔ لندن کے میئر کا الیکشن بھی ڈیوڈ کیمرون کا حمایت یافتہ امیدوار نہیں جیت سکا تھا۔ گزشتہ روز اس تجزیہ نگار نے تحریر کیا تھا کہ جو ووٹر ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ وہ مخالفت میں ووٹ دیں یا حق میں، ان کا ووٹ فیصلہ کن ہوگا۔ رائے عامہ کا عام رجحان یہ تھا کہ 52 فیصد ووٹ حق میں پڑیں گے لیکن ”سونگ ووٹ” کی وجہ سے معاملہ الٹ ہوگیا اور یوں پوری دنیا کے تجزیہ نگاروں کے اندازے غلط ثابت ہوگئے۔
اس فیصلے سے دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں میں بھونچال کی سی کیفیت ہے پونڈ کی قیمت گر رہی ہے اور سونے کی قیمت میں اچانک ریکارڈ اضافہ ہوگیا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتنا اہم فیصلہ تھا جو برطانوی عوام نے نتائج و عواقب سے بے پروا ہوکر بڑی آسانی اور سہولت سے کردیا اور اتنی ہی آسانی سے اسے تسلیم بھی کرلیا گیا۔نیوز ایجنسی بی این پی کے تجزیہ کے مطابق ریفرنڈم میں عام انتخابات سے بھی زیادہ ووٹ ڈالے گئے اور ٹرن آؤٹ 70 فیصد سے زائد رہا۔ دوسری جانب یورپی یونین کی سینئر قیادت برطانوی عوام کے اس فیصلے پر ناراض نظر آتی ہے اور یورپی پارلیمنٹ کے صدر مارٹن شلز کا کہنا ہے کہ ہم اب چاہتے ہیں کہ جتنی جلد ممکن ہو برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے اور ہم اس مقصد کیلئے ڈیوڈ کیمرون کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے کہ نکلنے کا فیصلہ ان کے جانشین کی آمد تک موخر رکھا جائے۔
مارٹن شلز کا کہنا ہے کہ اس مقصد کیلئے معاہد? لزبن کے آرٹیکل 50 کو بروئے کار لایا جائے گا جو پہلی مرتبہ استعمال ہوگا کیونکہ جب سے یورپی یونین وجود میں آئی ہے کوئی رکن ملک اسے چھوڑ کر الگ نہیں ہوا، برطانیہ پہلا ملک ہوگا جو یونین سے علیحدہ ہوگا۔ اس آرٹیکل میں وہ طریق کار بیان کیا گیا ہے جس کے تحت کوئی رکن ملک علیحدہ ہوسکتا ہے۔ مارٹن شلز کے مطابق یونین کے قانونی ماہرین اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کیا برطانیہ کو یونین سے الگ ہونے کے طریق کارکو تیز تر کیا جاسکتا ہے۔ شلز کا کہنا تھا کہ کنزر ویٹو پارٹی کی اندرونی جنگ کی وجہ سے ایک پورے براعظم (یورپ) کو یرغمال بننا پڑا ہے۔
یورپی یونین کے اندر ایسے خدشات پائے جاتے ہیں کہ برطانیہ کے اس یکطرفہ فیصلے کے اثرات دوسرے ملکوں پر بھی پڑیں گے جہاں پہلے ہی ایسے ریفرنڈم کے انعقاد کے مطالبے ہو رہے ہیں۔ فرانس، ہالینڈ اور سویڈن میں بھی یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ برطانیہ کی طرز پر یہاں بھی ریفرنڈم کرایا جائے جس میں عوام یہ فیصلہ کریں کہ وہ یونین میں رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے جمعہ کے روز اپنے استعفے کی تقریر میں کہا تھا کہ ان کا استعفیٰ اکتوبر میں روبہ عمل آئے گا جب ٹوری پارٹی کی کانفرنس ہو گی۔
اس کے بعد آرٹیکل 50 کے تحت کارروائی اور علیحدگی کے مذاکرات کا آغاز ہوگا۔ لندن کے سابق میئر بورس جانسن جو علیحدگی کے حق میں مہم چلاتے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ کو یونین سے نکلنے کی ”جلدی” نہیں، یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کا اجلاس اگلے ہفتے ہوگا جس میں برطانیہ کے بغیر یونین کے مستقبل پر غور ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ تاریخی لمحہ ہے لیکن یہ ہسٹریائی (مجنونانہ) ردعمل دینے کا لمحہ نہیں ہے۔
جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اور فرانس کے صدر فرانسس اولاند نے برطانوی عوام کے فیصلے پر اظہار افسوس کیا ہے تاہم یہ کہا ہے کہ یونین کو اب اپنے اختلافات کی خلیج گہری نہیں ہونے دینی چاہئے۔ بلجیئم کے وزیراعظم چارلس مائیکل نے کہا کہ یورپی یونین کے لیڈروں کا خصوصی اجلاس اسی ماہ بلایا جائے اور ٹھنڈے دل سے اس سارے معاملے پر غور کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ تعاون کے اور کون سے طریقے بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔ پولینڈ کے وزیر خارجہ نے کہا کہ برطانوی عوام کے فیصلے سے یورپی اتحاد کے مستقبل سے مایوسی جھلکتی ہے۔ اس وقت 12 لاکھ برطانوی شہری یورپی ملکوں میں رہ رہے ہیں اور 30 لاکھ یورپی شہری برطانیہ میں مقیم ہیں۔ علیحدگی کے فیصلے کے بعد ان کے مستقبل کا فیصلہ بھی کرنا ہوگا۔ اسی طرح یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ یورپ اور برطانیہ کے درمیان مستقبل میں تجارت کس طرح ہو گی۔
تحریر : سید توقیر زیدی