اسلام آباد(ویب ڈیسک )افغانستان میں تشدد کے تین مختلف واقعات میں کم ازکم 36 افراد ہلاک ہو گئے جن میں 30 سیکیورٹی اہل بھی شامل ہیں جو طالبان کے حملوں کا نشانہ بنے۔افغان عہدے داروں کا کہنا ہے کہ کابل کے مغربی حصے میں برہم مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں پولیس اہل کار زخمی ہو گئے۔
یہ جھڑپیں شیعہ اقلیت کی ہزارہ کمیونٹی اور پولیس کے درمیان اس وقت ہوئیں جب انہوں نے دارالحکومت کابل میں پیر کو دوسرے روز بھی ایک متنازع عسکری کمانڈر کی گرفتاری کے خلاف سڑکوں پر مظاہرہ کیا۔نائب وزیر داخلہ جنرل اختر ابراہیمی نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ پولیس احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اسی دوران مجمع نے اس پر حملہ کر دیا۔جنرل اختر ابراہیمی کا کہنا تھا کہ مظاہرین کے حملے میں 48 پولیس اہل کار زخمی ہوئے جن میں سے 4 کو گولیاں لگیں۔مظاہرے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ پولیس نے اتوار کے روز ان کے مظاہرے پر فائرنگ کی جس سے 6 افراد ہلاک اور کم از کم 20 زخمی ہو ئے۔تاہم نائب وزیر داخلہ ابراہیمی اس کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے مظاہرین پر ’زندہ گولا بارود‘ استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے مظاہرین کی ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کی۔مظاہروں کی وجہ سے کابل کے مصروف ترین علاقے میں روزمرہ زندگی کے معمولات معطل ہو کر رہ گئے۔ مظاہرین ایک عسکری کمانڈر عبدلغنی علی پور کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ بے قصور ہے۔
افغان خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی نے علی پور کو اتوار کے روز غیر قانونی طور پر کئی سو مسلح افراد کا گروپ رکھنے اور علاقے میں غیر قانونی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزامات پر گرفتار کیا تھا۔ تاہم مظاہروں پر قابو پانے کے لیے پیر کی رات علی پور کر رہا کر دیا گیا۔ایک اور خبر کے مطابق مغربی صوبے فرح کے عہدے داروں نے بتایا کہ ایران کی سرحد کے قریب طالبان نے افغان پولیس کی ایک چوکی پر حملہ کر کے 22 اہل کاروں کو ہلاک کر دیا۔ ہلاک ہونے والوں میں چوکی کا سربراہ بھی شامل تھا۔افغانستان کے شمالی صوبے فریاب سے حاصل ہونے والی خبروں میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے ضلع قیصر میں ایک فوجی مرکز پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں کم ازکم 8 فوجی ہلاک اور 3 زخمی ہو گئے۔طالبان نے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ دونوں حملے طالبان عسکریت پسندوں نے کیے تھے۔ تاہم انہوں نے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کہیں زیادہ بتائی۔ دور افتادہ علاقوں میں آزادانہ ذرائع سے ان دعوؤں کی تصدیق مشکل ہے۔افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اس مہینے کے شروع میں کہا تھا کہ حکومت مخالف فورسز کے حملوں میں 2015 سے اب تک 29 ہزار افغان سیکیورٹی اہل کار ہلاک ہو چکے ہیں۔