تحریر : واٹسن سلیم گل
برسلز میں دہشتگردوں نے حملہ کر کے 35 انسانوں کو ہلاک اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا۔ پیرس کے واقعے کے بعد یہ یورپ میں سب سے بڑا دہشتگردی کا واقعہ ہے۔ دہشتگردوں نے برسلز ائرپورٹ ، مولنبیک میٹرو اسٹیشن اور رائل پیلس کو نشانہ بنایا۔ یہ حملے خود کُش حملے تھے۔ مولنبیک میٹرواسٹیشن یوروپین کمیشن کے ہیڈ کوارٹر سے تقریبا 300 میٹر سے بھی کم فاصلے پر موجود ہے۔ ان حملوں میں دہشتگردوں نے سوفٹ ٹارگٹ یعنی بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا۔ زخمیوں میں چند کی حالت تشویشناک ہے ۔ یہ حملہ بیلجئم کے دارالحکومت پر نہی بلکہ یوروپیئن یونین کے دارلحکومت پر تھا۔
کیونکہ برسلز میں یوروپیئن یونین کا صدر دفتر موجود ہے اور یوروپیئن یونین اور کمیشن کے تمام اجلاس اور میٹینگز اسی شہر میں منعقد ہوتی ہیں اس کے علاوہ نیٹو کا ہیڈ آفس بھی اسی شہر میں واقع ہے اور برسلز ائرپورٹ سے بہت نزدیک ہے ۔ حملے کی خبر جیسے ہی میڈیا نے نشر کی ساری دنیا میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئ۔ افریقہ سے امریکا اور آسٹریلیا سے لیکر کینڈ ا تک میں اس خبر کی گونج سُنی جاتی رہی ۔ جہاں ان حملوں کی مُزمت کی گئ وہیں یہ سوالات بھی اٹھنے لگے کہ یوروپیئن یونین کے پاس اتنی جدید ٹیکنولوجی کے باوجود یہ حملہ آور ائیرپورٹ جیسے حساس مقام تک اتنا آتشگیر مواد کیسے ڈپارچرلاؤنج تک لے گئے ؟۔ اور یہ اگر اور آگے چلے جاتے تو حالات مضید خوفناک ہوتے۔
ساری دُنیا نے ان حملوں کی مزمت کی کیونکہ ان 35 جانوں کا نقصان یورپ میں ہوا ۔ اور واقئ یہ واقعہ قابل مُزمت ہے۔ معصوم انسانوں پر حملے ناقابل برداشت ہیں اور ان حملوں کے زمہ داروں کو قرارواقئ سزا ملنی چاہئے۔ اس وقت برطانیہ سمیت تمام دنیا بیلجئیم کی مدد کے لئے کھڑی ہوگئ ۔ دنیا کا تمام میڈیا بشمول پاکستانی میڈیا بھی کئ گھنٹوں تک ان حملوں کے حوالے سے بریکینگ نیوز دکھاتا رہا۔
اسی دن ایک اور خبر پاکستان کے میڈیا پر چل رہی تھی ۔ جس پر اتنی توجہ نہی دی جارہی تھی جتنی کے اس خبر کو ملنی چاہئے تھی۔ حالانکہ یہ بھی جانی نقصان کے حوالے سے تھی ۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ برسلز میں ہونے والے جانی نقصان سے بڑا نقصان ہوا تھا تو غلط نہ ہوگا کیونکہ برسلز میں 35 لوگ جاں بحق ہوئے مگر سندھ میں ٹنڈو محمد خان میں زہریلی شراب پی کر ہلاک ہونے والے تو، ابھی تک کی اطلاع میں 55 پاکستانی اپنی جان سے گئے۔ مگر ان کی خبر وہ توجہ حاصل نہ کر سکی جو بیلجئم کے واقعے نے حاصل کی ۔ شاید مغرب والوں کے خون کا رنگ سُرخ ہوتا ہے اور پاکستانیوں کے خون کا رنگ سفید ہوتا ہوں ۔ یا شائد ان کے خون کی کوئ قیمت ہی نہ ہو۔ برسلز کے واقعہ کے بعد ایک خبر جو کہ بیلجئم میں پاکستانی سفارتخانے سے متعلق تھی اس خبر کو دیکھ کر میں طنز سے مسکرا اٹھا۔
خبر یہ تھی کہ ان واقعات میں کوئ پاکستانی جاں بحق نہی ہوا اور سفارتخانہ اس حوالے سے متحرک ہے ۔ ایک چینل پر تو دو ٹکر ساتھ ہی چل رہے تھے ۔ ایک پر لکھا تھا کہ ٹنڈو محمد خان میں زہریلی شراب پینے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 36 (اس وقت ) ہوگئ ۔ دوسرے ٹکر پر بیلجئم کے سفارتخانے سے متعلق خبر چل رہی تھی کہ وہ اپنے پاکستانی بھائیوں کی جان کے لئے کتنے فکر مند ہیں۔ اس وقت جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو خبر یہ ہے کہ زہریلی شراب پینے سے مرنے والوں کی تعداد 55 ہو گئ ہے۔ ان میں زیادہ تعداد ہندو کمیونٹی کے نوجوانوں کی ہے وہ ہولی کا تہوار منا رہے تھی ۔ اور یہ خوشیاں ان کے لئے غم کا پہاڑ ثابت ہویئں ۔ صرف ایک ڈی ایس پی اور کریم آباد کے علاقے کا ایس ایچ او معطل کر دیا۔ کیا یہ شرارت پہلی بار ہوئ ہے؟۔
ستمبر 2014 میں حیدرآباد میں 23 اور اکتوبر 2014 میں کراچی میں 27 افراد ہلاک ہوئے ۔ زہریلی شراب جیسے واقعات بہت پُرانے ہیں 80ء کی دہائ کے آخری سالوں میں کراچی میں بہت سے لوگ ہلاک ہوئے میری اپنی گلی میں میرے دوست کے دو سگے بھائ اور ایک بہنوئ اس مافیا کا شکار ہوئے ۔ ایک ہی گھر سے تین جوانوں کے جنازے اور ان کے گھر والوں کا ماتم مجھے آج بھی یاد ہے۔ مگر یہ شرمناک کام پھر جارہ و ساری ہے۔
تیس سال قبل بھی کراچی میں جن اڈو پر کچی شراب بکتی تھی آج بھی وہ اڈے موجود ہیں مگر کوئ ان سے پوچھنے والا نہی ہے۔ کیا یہ دہشتگردی کے زمرے میں نہی آتا۔ کیا سندھ حکومت سوئ ہوئ ہے ۔ جن کو تھر میں معصوم بچوں کی چیخ و پکار سُنائ نہی دیتی تو ان کو اقلیتوں کے اتنے سارے جنازوں سے کیا لینا دینا۔ اور کیا یہ وفاقی حکومت اور رینجر کی بھی زمہ داری نہی ہے کہ اگر سندھ حکومت اندھی اور بہری ہو چکی ہے تو وہ لوگوں کی مدد کے لئے آگے بڑھیں ۔ یاد رہے کہ ٹنڈو محمد خان کے علاقے کریم آباد میں زہریلی شراب بیچنے والے پہلے بھی پکڑے گئے اور عدم ثبوت پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔
اب پھر ان کے خلاف مقدمہ تو قائم ہو گیا ہے مگر کیا یہ کیفرکردار تک پہنچے گے ؟۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ان کو علاقے کے ایس ایس پی نسیم آراپنہور کی سرپرستی حاصل ہے۔ دراصل مجرم بھی تو اسی قبیلے کے ہیں اور ان کا نام علی نواز پنہور ، حاکم علی پنہور، شوکت علی پنہوراور عبدل رحمان پنہور ہیں۔ یہ کئ دہائیوں سے اس گھناؤنے کام میں مصروف ہیں مگر ان پر کوئ ہاتھ ہی نہی ڈالتا۔
ان میں سے حاکم علی پنہور پر ایک ہندو کم سن لڑکی کے اغوا، زیادتی اور زبردستی مسلمان بنانے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔ اب جب یہ مقدمہ آگے چلے گا تو مرد حضرات تو زہریلی شراب پی کر جہان فانی سے کوچ کر چُکے ہیں ۔ اور ان کی خواتین کب تک ان کے مجرمان کے خلاف کھڑی رہ سکتی ہیں؟۔ پھر یہ کیس بند ہو گا۔ اور پھر چند مہینوں یا سال بعد یہ تاریخ دوبارہ دہرائ جائے گی۔
تحریر : واٹسن سلیم گل