counter easy hit

ڈول کے ہاتھی ،ایس ایم حسنین

Bucket Elephent by S.M.Hasnain

Bucket Elephent by S.M.Hasnain

سنا ھے کہ اگلے وقتوں کے بادشاہ خوش ھوتے تھے تو اکثر سامنے والے کو شاہی انعام کے طور پہ ہاتھی مرحمت فرمایا کرتے تھے جو قمیتی زیورات و جھول سے آراستہ ھوتا تھا ۔ یہ شاہی انعام امیر اور کھاتے پیتے لوگ جب لے کر چلتے تو ان کی شان و شوکت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا۔پھر ان  کی ڈیوڑھی پہ جھولتا تو ان کی عزت اور جاہ و حشم میں کئی اور چاند جڑ دیتا تھا مگر جب کسی غریب نے بادشاہ کیلئے اہم کارنامہ سرانجام دیا ہوتا اور اس کو شاہی انعام سے نوازا جاتا تو سفید پوش  غریب کی یہ عزت افزائی اسے بہت مہنگی بھی پڑتی کیونکہ شاہی ہاتھیوں کا پالنا اور ان کی شان و شوکت قائم رکھنا کیا آسان ھے ۔ دیکھ بھال کو مہاوت درکار ھوتا ھے تو کھلانے کو من بھر راتب ۔ اس ھاتھی کو بیچا بھی نہیں جا سکتا تھا کیونکہ تحفہ کی بے قدری آپکے غدار ہونے کی علامت بھی سمجھی جاسکتی ہے اور پھر بادشاہ ہاتھی کے پیروں تلے ہی روندوا دے گا ۔ سو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق غریب اعزاز یافتہ گھر بھر کا پیٹ کاٹ کر ہاتھی کا شکم بھرتا رہتا ۔بات پرانی ھو جاتی تو پہلے قیمتی جھول غائب ھوتا پھر ہاتھی کے گہنے پاتے اور آخر اس ننگے بچے ہاتھی کے گلے میں ایک بڑا سا ڈول لٹکا کر اسے کھلا چھوڑ دیا جاتا کہ ہاتھی پھرے گاؤں گاؤں ۔جس کا ہاتھی اس کا ناؤں ۔ دن بھر ہاتھی ادھر ادھر گھوم گھام کر واپس آتا تو نہ صرف اس کا پیٹ بھرا ھوتا بلکہ ڈول بھی بھرا ھوتا ۔ اس طرح عزت سادات بھی قائم رہتی اور بادشاہ کے سوالوں کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا،

کچھ ایسا ہی عالم سفید پوش غریب عوام کا بھی ہے جو بے گھر بھی ہیں اور بے آسرا بھی ، سرکاری نوکریاں ناپید، علاج معالے اور تعلیم کا نظام ندارد،قانون کی حکمرانی کا یہ حال کہ ایف آئی آر درج کرانا کسی سفید پوش بے آسرا کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف اور پھر عدالتیں انصاف کیلئے تو جیسے بنائی ہی نہیں گئیں ،اور ایسے میں غریب عوام شاہی انعامات کے طور پر میٹرو بسیں ، موٹرویز ، اورنج ٹرینیں وصول کر رہے ہیں اور ٹیکسوں کی شکل میں ان ڈول کے ہاتھیوں کو پال رہے ہیں اور پالتے رہیں گے ۔ پھر ہوگا وہی جو ڈول کے ہاتھی کے ساتھ ہوتا ہے ابھی تک تو میٹرو بسیں خسارے پر چل رہی ہیں اور اربوں کی سبسڈی پر گزارا ہو رہا ہے مگر کیا نئی حکومت ان شاہی ڈول کے ہاتھیوں کو اپنے گلے کا ڈول بنائے گی ۔ اگر نہ بنایا تو ان میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں کے منصوبوں کا وہی حال ہوگا جو ڈول کے ہاتھی ، شاہی انعام کا ہوتا تھا۔

حکومت نے گزشتہ حکومت کا  پانچ سال میں لیا گیا قرضہ ایک ہی سال میں لے کر نیا ریکارڈ قائم کیا اور اس سے بنایا کیا؟  شاہی انعامات کے منصوبے ! جو غریب کی جیب سے ٹیکسوں کے ذریعے  شاہی ڈول کے ہاتھیوں کا خراج وصول کر نا شروع ہو چکے ہیں سبسڈی کی صورت میں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ اس ضمن میں جب آئندہ الیکشن کی تیاری کرنے والی سیاسی پارٹیوں کی حالت پر غور کرتا ہوں تو بے اختیار ہنسی آتی ہے کہ کوئی اس ملک کی باگ ڈور ہاتھ میں لے کر کرے گا کیا اس حکومت نے اتنے ہاتھی کھول کر چھوڑ دیے ہیں کہ اگر آئندہ پانچ سال خود انہیں بھی مل جائیں تو ان کیلئے ڈول کےہاتھیوں کو پالنے کیلئے پھر آئی ایم ایف ہی کا سہارا لینا پڑیگا۔ جی ہاں اگر پرانے زمانے کے لوگ بھی ڈول کے ہاتھیوں جیسے شاہی انعامات کیلئے کسی آئی ایم ایف سے قرضے لینا شروع کر دیتے تو کیا ہوتا  یقیناًً نسل در نسل ہاتھیوں سے بڑے قرضوں میں پھنسے ہوتے اور یہ کہانی ہماری ہے جو کہ انجام پاچکی ہے ۔

بنیادی مسائل ہیں کہ جوں کے توں ہیں کیا ان قرضوں کا تھوڑا سا حصہ ان بنیادی مسائل پر خرچ نہیں ہو سکتا تھا  محض تھوڑی سی توجہ سے ان مسائل کوتقریباً ختم کیا جاسکتا ہے مگر  ہمارے حکمرانوں کی ان مسائل سے دلچسپی صرف اتنی ہی ہے جتنی کسی سر پھرے عاشق کو انجینئرنگ یا میڈیکل کی تعلیم سے ہو سکتی ہے ان مسائل کے ساتھ عوام نے جینا جیسے سیکھ لیا ہے اس لئے حکمران بھی اب ان مسائل پر واویلے کو درخوراعتنا ئ نہیں سمجھتے ،شاہی انعامات کے طور پر   فلک بوس میٹرو بس سروس کو دیکھیے تو ہر ذی شعور کے دل میں خیال تو آتا ہوگا کہ کیا پنجاب سپیڈ کے دعویدار سڑکوں اور میٹرو بسوں کے شاہی انعامات گنوانے والے جلسوں میں شاعرانہ اور طرابانہ جھوم جھوم کر ببانگ دہل اپنے ان شاہی کارناموں پر اترانے والے غریب کو دوکمروں کی چھت بنا دینے کے قابل نہیں یا شاید دو کمروں کی چھت سے سفید پوش غریبوں کی عزت افزائ تو ہو جائے گی اور انمول دعائیں بھی مل جائیں گی مگر وہ ڈول کے ہاتھی کی طرح شاہی انعام کی تشہیر تو نہ کر سکیں گی۔ ممکن ہے اس سے 40000یا 50000غریب خاندانوں کا بھلا ہو جائے مگر آخر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے ۔پھرصاحب جو بات میٹرو بسوں کے ایلیویٹڈ ٹریک پر جھوم جھوم کر چلنے میں ہے اوربل کھاتی سڑکوں اور ان پر دوڑتی اشرافیہ کی گاڑیاں شاہی انعامات کو داد تحسین دیتی ہیں وہ غریب کیا دے سکیں گے غریبوں کو تو صرف ان شاہی انعامات کو اپنے ٹیکسوں سے پالنا ہے اور بس

me-safeer-qalam, S.M.Hasnain

me-safeer-qalam, S.M.Hasnain

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website