کسی بھی ملک کی ترقی کا پیمانہ اونچی عمارتیں، لمبی سڑکیں اور اونچے پُل نہیں بلکہ اونچی عمارتوں میں کام کرنے والے کارکنان کی تربیت،لمبی سٹرکوں اور اونچے پُلوں پر سفر کرنے والے مسافر وں کی منزلیں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔
گزشتہ شب لاہور جیسے بڑے شہر میں دل کے علاج کے ایک بڑے ہسپتال میں اپنے ایک بہت قریبی عزیز کو لے کر جانے کا اتفاق ہوا۔ گورنمنٹ ہسپتال کے موجودہ سسٹم کو جب دیکھا تو ایک ہی جملہ منہ سے ادا ہوا۔
یا اللہ کبھی کسی دشمن کو بھی گورنمنٹ ہسپتال کے راستے پر نا آنا پڑے۔
ایک طرف پنجاب میں ترقی کے دعوے کرنے والوں نے اونچی و جدید عمارتیں تو بنا دی ہیں لیکن ان میں موجود سسٹم کو اور عملے کے اخلاق کو کب بلند کیا جائے گا؟ کون ان کی تربیت کرے گا؟ کون ان عمارتوں میں موجود سسٹم کو اپ گریڈ کرے گا؟
گزشتہ پانچ سالوں میں ملک کی دو بڑی جماعتوں کے منشور میں ایک یہی بنیادی فرق نظر آیا ہے کہ ایک جماعت عمارتیں بنانے کے دعوے کرتی ہے جس کو دیکھنے والے ترقی سمجھتے بھی ہیں تو دوسری طرف دوسری بڑی جماعت نے پاکستان کے ایک صوبے میں انہی بلند عمارتوں اور اداروں کے نظام کو درست کرنے کا عزم کیا تھا تو گزشتہ پانچ سال سے اُس صوبے کی گلی محلے سے مجموعی لوگوں نےسسٹم ٹھیک ہونے کی کسی حد تک تصدیق بھی کی ہے۔
گزشتہ روز لاہور کے مشہور ہسپتال کا دورہ کرنے کے بعد ایک چیز ہی سمجھ میں آرہی ہے جتنا کسی عمارت کو بنانا ضروری ہے اتنا ہی ضروری اس عمار ت میں موجود سسٹم کو ٹھیک کرنا بھی ہے۔ اگر سسٹم ناقص ہوگا، عمارت بھی ناقص ہوگی اور اس عمارت کے وجود سے بنانے والے کو شاید ہی فائد ہ ہو لیکن جن کے لئے بنائی گئی ہے، ان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں۔
اگر ایک انسان اپنی ساری جمع پونجی لگا کر ایک اچھا گھر بنا لے جس میں تمام ضروریات زندگی کی اشیا ءموجود ہوں لیکن گھر کا سسٹم ہی ٹھیک نا ہو تو اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ گھر کسی کھنڈر سے کم نہیں۔
بات صرف اتنی سے ہی ہے کہ ہمارے ملک کو عمارتوں سے زیادہ سسٹم کی ضرورت ہے، سڑکوں سے زیادہ لوگوں کی تربیت کی ضرورت ہے جو کہ مناسب قانون سازی سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ جب تک ایسے اقدامات نہیں ہوں گے تب تک حقیقی معنوں میں تبدیلی نہیں آ سکتی اور نہ ہی ترقی کا تصور ممکن ہے۔