پاکستانی فلمی موسیقی کی تاریخ احمد رشدی کے بغیر ادھوری ہے۔ معروف گلوکار کو مداحوں سے بچھڑے 33 سال بیت گئے لیکن ان کے گائے ہوئے گیتوں سے ہر دور کے سننے والے محظوظ ہوتے رہیں گے۔
کراچی: (یس اُردو) 24 اپریل 1934ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہونے والے احمد رشدی کو بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا۔ انہوں نے 1954ء میں اپنے فنی کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 1955ء میں پہلی مرتبہ پاکستان کا قومی ترانہ گانے والے دس گلوکاروں میں ایک نام احمد رشدی کا بھی تھا۔ احمد رشدی کو سروں پر عبور ایسا تھا کہ ہر مزاج کا گیت باآسانی گا لیتے تھے اور آواز میں ایسا جادو تھا کہ ہر عمر کے لوگ ان کے سحر میں گرفتار ہو جاتے تھے۔احمد رشدی کے پہلے گیت بندر روڈ سے کیماڑی نے انہیں نہ صرف شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا بلکہ فلموں میں بھی لے آیا۔ پلے بیک سنگنگ میں ان کے انداز کی انفرادیت ہمیشہ قائم رہی۔ چاند سا مکھڑا اور گول گپے والا آیا جیسے نغموں نے انھیں صف اول کا گلوکار بنا دیا۔ احمد رشدی نے صرف وحید مراد کے لئے 150 گیت گائے جو سننے والوں میں آج بھی بے حد مقبول ہیں۔ انھوں نے فلم خاموش رہو کے لئے حبیب جالب کی غزل میں نہیں مانتا گا کر اسکے اشعار کو زبان زد عام کر دیا۔گلوکاری کی دنیا کا یہ چمکتا ستارہ 11 اپریل 1983ء کو ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا۔ پاکستانی فلمی گائیکی پر انمٹ نقوش چھوڑنے والے احمد رشدی کو ان کی وفات کے بعد حکومت کی جانب سے ستارۂ امتیاز کے سے بھی نوازا گیا۔