تحریر : انجینئر افتخار چودھری
٢٨٠ کم سن بچوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے گئے۔والدین کے بقول ان کے معصوم بچوں پر زیادتی کی گئی ان کی فلمیں بنا کر عالمی منڈی میں بیچ دی گئیں اور تو اور کم سن بچے بلیک میلنگ کا شکار ہو کر گھر سے زیوارت چوری کرتے رہے والدین کو بد قمش لوگ ورغلاتے رہے۔معاملہ کیا تھا ایک کاروبار بنا ہوا تھا۔ادھر پنجاب کے وہ وزیر جن پر ماڈل ٹائون کیس کے الزامات لگے فیصل آباد میں پی ٹی آئی کے جوان کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی لگائی گئی انہوں نے اس کیس کو سرے سے دوپارٹیوں کے زمین کے تنازعے کا شاخسانہ قرار دیا۔ایک انکوائری بھی تشکیل دی گئی جس میں کمشنر لاہور اور پولیس کے ایک اعلی افسر شامل ہیں۔
سچی بات ہے پنجاب پولیس ہے یہ کماد کے کھیسے ایک ہاتھی کو برآمد کر سکتی ہے جو سر عام کہے گا میں چوہا ہوں میں چوہا ہوں۔گڈ گقورننس کے اس دور میں سانحہ ماڈل ٹائون ڈسکہ فیصل آباد اور راولپنڈی ہوتا ہے اور پولیس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی پولیس عدالتیں سب کچھ موجود ہے مگر ایک چیز ناپید ہے وہ ہے انصاف۔پنجاب کے باسی اس لحاظ سے بد قسمت ہیں کہ انہیں کالی قمیض اور خاکی پتلون والی پولیس میسر ہے ۔جسے دیکھ کر شرفاء کے ماتھے پر پسینے آ جاتے ہیں ۔لیکن بد قماش اور قانون شکن اپنے حصے کی ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہونے کے بعدمزے کرتے ہیں۔یقین کیجئے میری گاڑی چوری ہوئی تو پولیس موقع پر پہنچنے کے بعد واردات کا نقشہ بنانے کے عمل میں لیت و لعل سے کام لیتی رہی۔
نشانات لگانے کے عمل کو بھی میرے سخت رویہ اپنانے پر اپنایا گیا۔ میں پولیس چوکی گیا وہاں ان کی حالت زار دیکھ کر دل پسیج گیا کرسیاں ٹوٹی ہوئیں تھانے دار صاحب کی چارپائی ادھر چوکی میں ہی۔مجھے ایسا لگا ابھی ہم آزاد نہیں ہوئے ابھی بھی ہم چوکی سچیت گڑھ میں بیٹھے ہیں۔میں شہر کے آر پی او کے پاس گیا ان سے بات چیت ہوئی گاڑی چوری کا سن کر سر ہلانے لگے اپنی بے چارگی کا اظہار اس طرح کیا کہ دل نے چاہا میں ان کا ماتھا چوم کر آ جائوں۔لیکن اس پولیس کو میں نے وحشانہ شکل میں ٢٠٠٢ میں دیکھا جب تھانہ گرجاکھ پولیس نے بھائی صاحب کے بلدیاتی انتحاب میں مخالف فریق کے لئے جان لڑا دی۔جھگڑا ہو گیا اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ایک کانسٹیبل نے تو سیدھا فائر مار دیا تھا جس میرے کزن نے بچا لیا۔
پنجاب پولیس جنرل ڈائر کی پولیس ہے اس کے منہ کو خون لگ چکا ہے اسے کوئی نہیں ٹھیک کر سکتا کے پی کے کا ناصر درانی بھی اور ذوالفقار چیمہ بھی۔جو درانی اور چیمے سے نہیں سدھر سکتے انہیں ختم کر دینا چاہئے اس عرصے میں پناجب کو رینجرز کے حوالے کر دیا جائے جو کن از کم تحقیق کے بعد ہی ہاتھ ڈالتی ہے۔ میں نے بلھے شاہ کی اس دھرتی پر ہونے والے مظالم کا عنوان نوے کی دہائی میں لاہور میں ہونے والے ہیبت ناک واقعے کے روح رواں جاوید اقبال اور پولیس کی ایک تصویر کو دیا ہے۔یہ وہ ظالم ہے جس نے سو مائوں کا قلیجہ چیرا تھا۔سو بچوں کے ساتھ وحشانہ سلوک کرنے کے بعد وہ ان کو قتل کر دیتا تھا ان کی لاش کے ٹکڑے کر کے تیزاب میں ڈال دیتا تھا۔ظالم نے سو کا ہندسہ کراس کرنے کے بعد اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
اس کا کہنا تھا یہ سب کچھ میں نے اپنی ماں کی چیخین رونا دھونا دیکھ کر کیا ہے۔مجھے پولیس نے ایک ناکردہ گناہ میں گرفتار کر لیا تھا مجھے بہت مارا گیا میرا سر پٹخ دیا گیا اور ریڑھ کی ہڈی بھی توڑ دی گئی۔میری ماں چیخیں مارتی رہی دیکھتی رہی اور پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اس ملک کی سو مائیں روئیں گی چیخیں ماریں گی اسے فوج نے گرفتار کیا جب وہ ایک اخبار کے دفتر میں پہنچا اور اعتراف جرم کیا تو فوج کو اطلاع دی گئی۔اخبار کے دفتر نے فوج کوکیوں بلایا ظاہر ہے
انہیں علم تھا کہ پولیس اس کو مقابلے میں پار کر دے گی۔اس پر مقدمہ چلا ایک جج نے غیر آئینی فیصلہ دیا کہ اس کو پھانسی دے کر اس کی لاش کے سو ٹکڑے کئے جائیں اور اس موقع پر سو مائیں موجود ہوں۔ظاہر ہے ایسا ناممکن تھا وقت آنے سے پہلے ہی وہ جیل میں زہر کھا کے مرگیا۔یہیایک مناسب حل تھا جو ڈھونڈھ لیا گیا بہت ہی اچھا ہوا کہ جوڈیشنل کمیشن بنانے کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔معزز عدالت نے مہر بانی کی ورنہ دھاندلی کیس کی مثال دے کر اسے بھی فارغ کر دیا جاتا کہ زیادتی تو ہوئی ہے مگر منظم طریقے سے نہیں کی گئی۔وقت کے صفحات پر لکھی گئی سطریں کبھی نہ کبھی ظاہر ہوں گی سچ کی تصویر دکھاتے ہوئے۔
رانا ثناء اللہ پنجاب کی تاریخ کے دوسرے رنجیت سنگھ ثابٹ ہوں گے جن انصاف اپنا ہو گا جنہیں ان مائوں کی چیخوں سے زیادہ پنجاب پولیس کے دفاع کا خیال زیادہ ہے۔ریحام خان قصور گئیں انہوں نے وہاں انصاف کی آواز بلند کی۔کیا ہی اچھا ہوتا وہ قصور کی بلھے شاہ کی ملنگنی فوزیہ قصوری کو بھی ساتھ لے جاتیں کوئی تو تعلق بنتا تھا ان کا۔احمد رضا قصوری بھی ساتھ ہی ہو لیتے تو کیا بات تھی کوئی ایسا پرچہ درج ہو جاتا اور اس کو سیل کر لیا جاتا تا کہ مناسب وقت پر کام آ جائے۔خیر کوئی مصلحت ہو گی۔
اس تصویر کو دیکھئے۔جاوید اقبال آج بھی زندہ ہے۔اس کیس کو تحریک انصاف کو ٹیسٹ کیس بنانا ہو گا۔یہ ٢٠١٣ کی دھاندلی سے بڑی دھاندلی ہو گی اگر اسے کسی انکوئری کمیشن کے ملبے تلے دبا دیا گیا ہو۔مجھے ڈر ہے پی ٹی آئی نے اسے آڑے ہاتھوں نہ لیا تو لوگ انصاف کے لئے ہاتھوں میں نیزے بالے لئے خود ہی نکلیں گے۔
اس جشن آزادی پر ماتم اور سوگ کی فضاء چھائی رہے گی۔جاوید اقبال کی روح کیا بھلے شاہ کے شہر میں اتر آئی ہے۔میں سمجھتا ہوں میاں شہباز شریف کے لئے سنہری موقع ہے وہ اپنی انگلی سے زیادہ تیز انصاف کا ڈنڈہ چلائیں۔
جی ہاں میاں صاحب سرور پیلیس میں ساہیوال کی بیٹی کے چلانے پر آپ بہت روئے تھے آج بھلے شاہ کی سر زمین کی مائیں چیخ رہی ہیں۔کچھ تو کیجئے۔ کچھ شعر یاد آئے بنت گجرانوالہ امرتا پریتم کے
اب آکھاں وارث شاہ نوں اٹھ قبراں وچوں بول اج کتاب عشق دا کوئی نواں ورقہ کھول اٹھ درد منداں دیا دردیا اج تک اپنا پنجاب اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دھی بھری چناب
تحریر : انجینئر افتخار چودھری