پیرس (راؤ خلیل احمد) امن اور خشبوں کا شہر پیرس 13 اور 14 اکتوبر کی درمیانی شب اس وقت وہشت کا روپ دھار گیا جب کچھ دہشت گردوں نے بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی جیسے میڈیا میں جنگ عظیم دوئم کے بعد پیرس کی تاریخ کے بد ترین تشدد کا نام دیا۔
اس خونی کھیل میں اب تک 130 بے گناہوں کی جان لی اور 351 افراد زخمی ہوئے جن میں سے 98 موت حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔اس ہوئے ظلم پر فرانس میں تین روزہ سوگ اور تین ماہ کے لیے ایمرجسی نافظ کر دی گئی جو ہوا وہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔ اور اگر فرانس کی سیکورٹی فورسز درست ٹائم پر اپنی ڈیوٹی انجام دینے میں چوک جاتیں تو شائد نقصان کا ازالہ مشکل ہی نہیں نہ ممکن ہو جاتا۔
اس رات دہشت گردوں نے 6 مقام پر اٹیک کیا ۔ سٹیڈم فرانس (سٹڈ دو فرانس) 90 ہزار تماشائی جرمنی اور فرانس کا میچ دیکھ رہے تھے ملک کے صدر اور ان کی کابینہ بھی مہمانوں میں شامل تھیں۔ تین خودکش بمبار اسی ٹارگٹ پر فوکس کیے ہوئے تھے، جنہیں فرنچ پولیس نے ناکام بنایا اور انہوں نے خود کو گیٹ پر آڑالیا اور اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے تو نقصان کا اندازہ بیان سے باہر ہو جاتا۔
اس رات کا دوسرا بڑا ٹارگٹ بٹاکلاں تھیٹر تھا جس میں اس دن 1400 افراد موجود تھے ۔ ڈیوڈ ایک امریکن نوجوان ہے جوکہ پیرس میں زیرے تعلیم ہے وہ بھی ان 1400 سو افراد میں سے ایک ہے جو اس رات دہشت گردی کے شکار ہوئے۔ گولی سر کی کھال کو چیرکر ہڈی کو کس کرتے ہوئے دماغ سے ملی میٹر اور اتنا ہی موت سے زندگی کو پچا گئی۔
ڈیوڈ نے پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور طارق چوھدری جنہوں نے اسے ہسپتال سے گھر تک سروس دی بتایا کہ اس رات گولی لگی تو میں زمین پر گر گیا اور دم سادھ لیا میں نے لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھا۔ جو لوگ گرے ہوئےمدد کے لیے پکار رہے تھے ان پر مزید گولیاں برسا رہے تھے بھاگنے والوں کو پیچھے سے گو لیاں مار رہے تھے۔ مرنے اور زخمیوں کا خون پانی کی طرح بہ کر میرے نیچے سے گزر رہا تھا، نیچے پڑے ہوئے لوگوں کے ٹیلی فون کی بل بجنے پربھی گولی سے خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
“گولیوں کی تڑتڑاہٹ زخمیوں کی کراہٹوں اور مرنے والوں کی آخری ہچکیوں میں گزارا وہ وقت کبھی نہیں بھول سکوں گا” طارق چوھدری نے بتایا کہ وہ اب امریکہ جا رہا ہے اپنی ماں سے ملنے جو اسے بہت مس کر رہی ہے جو اسے چھونا چاہتی ہے۔ جو اسے محسوس کرنا چاہتی ہے ۔ڈیوڈ اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے سے پہلے اپنی ماں کو دیکھنا چاہتا ہے۔ اور میں اس 18 ماہ کے بچے کو سوچ رہا ہوں جس سے اس رات مان چھین لی گئی۔ اور جس کے باپ نے مارنے والوں کو نفرت کے قابل بھی نہیں جانا۔