اسلام آباد (ویب ڈیسک) سویلین بیوروکریسی کو نیب کے ہاتھوں مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچانے کے لیے وفاقی سیکریٹریوں نے ملک کی اہم ترین شخصیت سے ملاقات کی ہے۔ کابینہ سیکریٹری کی زیر قیادت تقریباً 15 وفاقی سیکریٹریوں نے گزشتہ اتوار کو اہم شخصیت سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ سیکریٹریوں کی کمیٹی
نامور صحافی انصار عباسی اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں۔۔۔ کی جانب سے بیوروکریسی کو ہراساں کیے جانے کے معاملے پر بحث اور اہم وزارت کے اہم عہدیدار کے توسط سے یہ معاملہ اہم ترین شخصیت کے ساتھ ڈسکس کرنے پر اتفاق کرنے کے چند ہفتوں بعد ہی وفاقی سیکریٹریوں کو اہم شخصیت کے ساتھ ملاقات کے لیے رات کے کھانے پر مدعو کیا گیا تھا۔ ایک سینئر ذریعے سے رابطہ کیا کیا گیا تو انہوں نے جمعرات کو ایک نیوز ایجنسی کو بتایا کہ سیکریٹریز نے اہم شخصیت کے ساتھ یہ ملاقات کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ابتدائی طور پر اس اہم شخصیت نے وفاقی سیکریٹریوں کو رات کے کھانے پر مدعو کرنے کیلئے اجازت طلب کی تھی۔ اگرچہ سیکریٹریز نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر اہم شخصیت سے ملاقات نہیں کر سکتے، لہٰذا اہم وزارت کے اہم عہدیدار سے کہا گیا تھا کہ وہ اہم شخصیت تک نیب سے وابستہ یہ معاملہ پہنچائیں۔ اپنے آخری اجلاس میں سیکریٹریز کمیٹی نیب کیخلاف متحد ہونے کے معاملے میں متفق تھی جبکہ نیب کے بیوروکریٹس کیخلاف آپریشن کو ’’ناقابل قبول‘‘ اور ’’ناقابل برداشت‘‘ قرار دیا گیا تھا، کمیٹی نے نیب قانون میں ترمیم کے حوالے سے سخت وارننگ جاری کی تھی اس سے قبل کہ نیب بیورو کو اپنے کام کاج سے مکمل طور پر مفلوج کر دے۔ ان کا کہنا تھا کہ طرز حکمرانی کو بہتر بنانے کیلئے کرپشن کی روک تھام کی بجائے نیب بہتر سروس ڈیلیوری اور اچھی طرز حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ ایک
نیوز پیپر نے گزشتہ منگل کو خبر شایع کی تھی کہ سیکریٹریز کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں بیوروکریسی نے نیب اور اس کے کام کرنے کے انداز پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ اجلاس کے اہم نکات دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ سیکریٹریز نے معمولی وجوہات کی بنا پر گرفتاریوں اور طلبی کے نوٹس کے اجرا کے حوالے سے سخت تشویش کا اظہار کیا تھا، جس کا مقصد قابل احترام سرکاری ملازمین کی تضحیک ہے اور یہ اقدام اچھی طرز حکمرانی کے اصولوں کیخلاف ہے لہٰذا اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ سیکرٹریوں کی متفقہ رائے میں نیب افسران کی جانب سے سمن اور وارنٹ جاری کرنے کیلئے اختیارات کا استعمال قطعی طور پر ناقابل برداشت ہے۔ ماضی میں زبانی یقین دہانیوں کے باوجود نیب حکام کے رویّوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ سرکاری افسران کو ٹھوس شہادتوں کے بغیر سمن جاری ہوئے، انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں۔ سیکرٹریز نے یہ بات زور دے کر کہی کہ قانون میں ٹھوس ترامیم کے ذریعہ دی جانے والی یقین دہانیوں کو قانونی تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بات بھی نوٹ کی کہ ریٹائرڈ افسران کی گرفتاریوں اور توہین کے افسوسناک واقعات ان کے اور ان کے خاندانوں کے لئے اذیت کا باعث بن گئے ہیں۔ یہ بات قابل مذمت ہے کہ قومی احتساب آرڈیننس کی دفعہ۔36 نیک نیتی سے نیب اقدامات کو تحفظ فراہم کرتی ہے جبکہ حکومتی شخصیات کی جانب سے تمام تر اقدامات کی بڑے تواتر سے بدنیتی سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ گو کہ سول سرونٹس ایکٹ کی دفعہ۔23
۔ اے بھی سول سروسز کو اسی طرح کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ کمیٹی نے کہا یہ بات بڑی تشویشناک ہے کہ کئی مقدمات میں سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی ٹھوس شہادتوں کے بجائے کسی مخصوص مقدمے میں فیصلے کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ جو بعد میں چل کر ناقص ثابت ہوتا ہے۔ یہ بھی افسوسناک امر ہے کہ نیب کے تفتیشی افسران کو مقدمات سے نمٹنے کا خاطرخواہ تجربہ نہیں ہے۔ پالیسی فیصلوں کو ناجائز قرار دینے کے عمل نے سرکاری ملازمین کو محتاط اور فیصلہ گریز کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں حکومتی عمل مزید سست پڑ گیا۔ جس کی علامات نمایاں ہونے لگی ہیں۔سیکرٹریوں نے اس بات کو افسوسناک قرار دیا کہ کرپٹ عناصر کے کھوج میں نیب نے بدقسمتی سے پالیسی سازی میں شامل تمام افراد سے پوچھ گچھ شروع کر دی ہے۔ اس حقیقت کے برخلاف کہ فیصلے نیک نیتی سے کئے گئے۔ سیکرٹریوں کی رائے میں حکومت کی تصور کردہ اقتصادی تبدیلی کیلئے سرکاری ملازمین کو جدت پسند اور متحرک ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو نیک نیتی سے خطرات مول لینے کی صلاحیت کے حامل ہوں لیکن ایسی فیصلہ سازی شفاف اور خوشگوار ماحول میں ہی ہو سکتی ہے۔ فی الحال فیصلہ سازی بعد ازاں نیب کے استفسار کے خطرے سے خالی نہیں۔