تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
30 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے جامع خطاب کے دَوران وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے بھارت کو چار نکاتی امن ایجنڈے کی پیش کش کرتے ہوئے فرمایاکہ سیاچن سے غیرمشروط فوجی انخلاء کیاجائے ،کشمیر کو غیرفوجی زون بنایاجائے ،دونوں ملک کنٹرول لائن پرسیزفائر معاہدے کی پابندی کریں اور دونوںممالک ایک دوسرے کودھمکیاں دینے اور طاقت کے استعمال سے گریز کریں۔ اُنہوں نے کنٹرول لائن پر اقوامِ متحدہ کے مبصر گروپوں کو مزید فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیااوریہ بھی فرمایاکہ پاکستان اور بھارت تنازعات کے حل کے لیے جامع مذاکرات کاسلسلہ شروع کریں ۔ دَرجوابِ آںغزل بھارت کی وہی ”میںنہ مانوں” کی رَٹ حالانکہ میاں نواز شریف صاحب کے چاروں نکات حقیقت پسندانہ ہیں لیکن چونکہ بھارت کے پاس اِن نکات کا کوئی جواب نہیں تھااسی لیے اُس نے اِنہیں مسترد کر دیا۔
میاں نواز شریف صاحب نے کشمیر کوج و ”غیر فوجی زون” بنانے کامشورہ دیا ،پرویزمشرف کے دَورِحکومت میں دونوںممالک کشمیرکو غیر فوجی زون بنانے پرمتفق بھی ہوچکے تھے لیکن اب بھارت مُکر گیا۔ سینکڑوں انسانی جانوں کو بغیر کسی جنگ کے نگلنے والے دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن سے فوجوں کے اِنخلاء کی تجویز بھی انتہائی مناسب کہ یہ انخلاء دونوںکے مفادمیںہے کیونکہ فوجوںکی موجودگی کی بناپر سیاچن گلیشیئر پگھل رہاہے جو خطے کے ماحولیات کے لیے شدید نقصان دہ ہے لیکن ”اکھنڈبھارت” جیسے احمقانہ خواب دیکھنے والوںکی سمجھ میںبھلا یہ مدبرانہ تجاویزکیسے آتیں؟۔
میاں نواز شریف کے خطاب کے دوران بھارتی ”شُرلی” وزیرِ خارجہ سُشما سوراج غصّے سے بار بار پہلو بدلتی رہی اور بالآخر لال پیلی ہوتی یہ شُرلی دَورانِ خطاب ہی اُٹھ کرباہر چلی گئی۔ اگلے دِن اُس نے جنرل اسمبلی میں اپنے دِل کی بھڑاس خوب نکالی کیونکہ سیلفیاںبنوانے کے شوقین مخبوط الحواس نریندرمودی توپہلے ہی مختلف تقریبات میںغلط سلط انگریزی” جھاڑ” کر نیویارک سے ”پھُر” ہوچکے تھے اِس لیے جنرل اسمبلی سے خطاب کاقرعہ فال سُشماسوراج کے نام نکلا ۔
اُس نے میاںنواز شریف کا چار نکاتی امن منصوبہ مستردکرتے ہوئے میاںصاحب کانام لے کرکہا کہ اُن کے چارنکات کی ضرورت نہیں، نکتہ صرف ایک ہے کہ دہشت گردی ختم کرکے بات چیت شروع کریں۔ پاکستان سے مذاکرات صرف بھارت کی شرائط اورایجنڈے کے مطابق ہوںگے۔ اُس نے بھارتی مؤقف کااعادہ کرتے ہوئے کہا” 2008ء کے ممبئی حملوںکے بارے میںبھارت جانتاہے کہ اِن کے پیچھے کون تھا۔ جوممالک دہشت گردوںکو محفوظ پناہ گاہیںدیتے ہیںاُن سے اُن کے اِس عمل کی بھاری قیمت لی جانی چاہیے۔ ممبئی حملے کے ماسٹرمائنڈ پاکستان میںآزادی سے گھوم پھررہے ہیں۔ اُن پر مقدمہ چلائیںیا ہمارے حوالے کریں”۔ سشماسراج نے یہ بھی کہاکہ پاکستان نے دہشت گردی کے نیٹ ورکس کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی نہ صرف ماضی کی یقین دہانیوںپر عمل نہیں کیا بلکہ پاکستان سے بھارت میںنئے حملے بھی ہوئے۔
اسے کہتے ہیں ”چورمچائے شور”۔ بھارت اپنی خفیہ ایجنسی ”را”کے ذریعے پاکستان میںدہشت گردی پھیلارہا ہے ،کراچی ، بلوچستان اورفاٹا میںبھارت کی دہشت گردی کے ٹھوس ثبوت ڈاکٹرملیحہ لودھی نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوپہنچا بھی دیئے ہیں لیکن کسی قسم کاکوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود بھارت پاکستان کودہشت گردی میںملوث کرنے کی ناکام کوشش کررہاہے ۔ ہمارے اربابِ اختیارکو چاہیے تھاکہ وہ کھُل کربھارتی چہرہ دنیاکے سامنے لاتے اورمیاں نواز شریف صاحب کے جنرل اسمبلی سے خطاب سے پہلے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را”کے پاکستان میںدہشت گردی کی کارروائیوںمیں ملوث ہونے کے سارے ثبوت اقوامِ عالم کے سامنے رکھتے لیکن سشماسوراج کے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ”را” کی ریشہ دوانیوں کی دستاویز بان کی مون کوپیش کی۔
وزیرِ اعظم صاحب کی تقریر سے پہلے اقوامِ عالم کے سامنے بھارتی دہشت گردی کے ثبوت رکھے گئے نہ ہی میاں نواز شریف صاحب نے اپنے خطاب میں اِن کا ذکر کیاج س کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ شاید وہ اپنے چار نکات پربھارتی ردِعمل دیکھناچاہتے ہوں۔ جب بھارت نے اِن نکات کو یکسر مسترد کر دیا تو پھریہ ثبوت سامنے لائے گئے جن سے اقوامِ عالم کم ازکم یہ تو جان جائیں گی کہ حقیقت پسندانہ رویہ کس کاہے اورغیر حقیقت پسندانہ کس کا۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 60 ہزارسے زائدانسانی جانوں اور 10 ہزار فوجی جوانوں کی قربانی دے چکا ،معیشت کا کھربوں روپے کا نقصان اِس کے علاوہ جبکہ دوسری طرف بھارت کا سارا انحصار صرف پراپیگنڈے پرہے ۔اُس نے دہشت گردی کے خلاف انسانی جانوںکی قربانی دی نہ معیشت کو جھٹکا لگا۔ وہ ممبئی حملوں میں آج تک کوئی ایک ٹھوس ثبوت بھی پیش نہیںکر سکا۔
بھارت نے حافظ سعیدصاحب پرالزام دھراتو حافظ صاحب نے بَرملاکہہ دیاکہ وہ دنیاکی کسی بھی عدالت میںپیش ہونے کوتیار ہیںسوائے بھارت کے۔ کشمیرکا مسٔلہ گزشتہ 68 سالوںسے فیصلے کا منتظرہے۔ بھارت خودہی یہ مسٔلہ اقوامِ متحدہ میںلے کرگیااوربھارت کے پہلے وزیرِاعظم پنڈت جواہرلال نہرونے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کوتسلیم بھی کیالیکن اقوامِ متحدہ کی قرارداد پرآج تک عمل نہیںہوا ۔وزیرِاعظم میاںنواز شریف صاحب نے بالکل درست کہا”مسٔلہ کشمیرحل نہ ہونااقوامِ متحدہ کی ناکامی ہے ،جھوٹے وعدوںاور سفاک مظالم نے کشمیر کی تین نسلیں اجاڑدیں دوطرفہ حل کی تمام کوششیں ناکام ہوچکیں۔ بھارت کہتاہے کشمیرپر بات نہ کریں ۔ ہمارے لیے ایساکرنا ممکن نہیں ۔پاکستان اورکشمیر صدیوںسے جغرافیائی، مذہبی اور ثقافتی رشتوںسے جڑے ہیں۔ پاکستان کشمیرکو اپنی شہ رَگ سمجھتاہے۔
1947ء سے کشمیرپر سلامتی کونسل کی قراردادیں عمل کی منتظرہیں”۔ سپہ سالارجنرل راحیل شریف نے بھی رائل ،یونائٹڈ ،سروسز انسٹی ٹیوٹ لندن سے خطاب کرتے ہوئے ایک بارپھرپوری قطعیت سے کہہ دیاکہ کشمیر برِصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے اوریہ تب تک مکمل نہیںہو گا جب تک کشمیرکا مسٔلہ حل نہیںہوجاتا۔حرفِ آخریہ کہ اگربھارت پُرامن پڑوسیوںکی طرح رہناچاہتا ہے تواُسے اپنے دماغ سے چودھراہٹ کاخناس نکال کر تمام متنازع امورکے حل کے لیے بِنا کسی پیشگی شرط کے مذاکرات کی میزپر آنا ہوگا۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر