تحریر : ایس ایم عرفان طاہر
دستور یہاں بھی اندھے ہیں ،فرمان یہاں بھی اندھے ہیں اے دوست خدا کانام نہ لے ،ایماں یہاں بھی اندھے ہیں تقدیر کے کالے کمبل میں عظمت کے فسانے لپٹے ہیں مضمون یہاں بھی بہرے ہیں ،عنوان یہاں بھی اندھے ہیں علم و دانش کے شہنشاہ حضرت واصف علی واصف فرما تے ہیں ،،مسلمان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ زندگی سے پیار کرتا ہے اور مو ت سے ڈرتا نہیں۔ دنیا کے نقشے پر موجود ایک نام برما جنوب مشرقی ایشیا میں واقع رقبہ اڑھائی لا کھ مربع میل آبادی تقریبا ٧ کڑوڑ بدھ مذہب کی اکثریت 14 صوبے 1996 میں سرکاری نام میا نما ر رکھا گیا ۔ بلا شبہ جن ممالک میں فو جی آمریت کا آسیب پروان چڑھتا ہے تو وہاں پر قتل و غارت گری بیڈ گورننس نا انصافی اور دیگر وبائیں عا م پائی جا تی ہیں ۔ لمحہ فکریہ ہے ملٹری ڈیمو کریسی کا راگ الا پنے والوں کے لیے لو لی لنگڑی جمہو ریت بھی آمریت کے فریب سے بہتر ہے ۔ دیگر ممالک کی طرح فوجی لوٹ مار نے میانمار کو اقتصادی بدحالی اور غریب ترین ممالک میں شامل کررکھا ہے۔
مسلم اکثریتی صوبہ اراکان کسی زما نے میں کشمیر کی طرح آزاد مگر اسلامی ریاست تھا 1784 میں برما کے راجہ نے حملہ کر کے قبضہ کرلیا 1886 سے 1948 تک برما تاج برطانیہ کے زیر سائیہ رہا لیکن انکے جا نے کے بعد آج بھی انکی طرف سے خیر اور امید نو کا طا لب دکھائی دیتا ہے ۔ 2010 میں فوجی آمر نے شدید بیرونی دبائو کی بدولت انتخابات کروائے آنگ سانگ سوچی نامی خاتون حذب اختلاف قیادت کامیاب ہوئی با وجود اسکے اقلیتوں کے ساتھ نا روا اور غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا ۔ روہنگیا مسلم کے لیے زندگی کو مو ت کا نام دے دیا گیاہے تعلیم و صحت اور بنیا دی سہولیا ت چھین لی گئی ہیں دنیا کے اندر بد ھ مت کا پرچار کرنے والے جن کے نظریا ت دیگر نام نہاد پر امن مذاہب کی طرح کہ چیونٹی کو بھی پائوں کے نیچے نہ آنے دیا جا ئے کہ ایک جاندار شے ہے امن و محبت کی گردان الا پنے والے اس قدر ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے پر تلے ہو ئے ہیں کہ تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی ہے۔
فلسطین ، سریا ، شام ، عراق ، افغانستان اور کشمیر سے بڑھ کر وہاں انسانیت کی تذلیل کی جا رہی ہے مردوزن ، بوڑھوں بچوں اور خواتین کے ساتھ حیوانیت سے بڑھ کر سلوک کیا جا رہا ہے کسی انسان کو زندہ جلا یا جا تا ہے تو کسی کو عبرت ناک اور نایا ب موت دیتے ہو ئے اسکے جسم کے ایک ایک عضو کو بعد از مرگ کاٹا جا تا ہے خواتین کی بے حرمتی اور عصمت دری کی ایسی خوفناک مثالیں قائم کی گئی ہیں کہ روح بھی کانپ اٹھتی ہے انتہا پسندی ، دہشتگردی اور شرانگیزی کو برما کے اندر مات دے دی گئی ہے ۔برما کے اندر مسلم کمیونٹی کی لڑکی کو شادی سے قبل سرکاری ملا زمین کی خوشنودی اور اجا زت حاصل کرنے کے لیے اپنی عزت و آبرو کی قربانی دینا پڑتی ہے۔
ایک من گھڑت کہانی، جھوٹ، افواہ اور سازش کے زریعہ سے اقلیتوں کے حقوق کو پامال کرتے ہو ئے انکے لیے عرصہ حیات تنگ کردیا گیاہے ظلم و جبڑ کی ایسی گنا ئو نی داستانیں رقم کی گئیں ہیں کہ جس کا مقابلہ کسی اور غیر انسانی اور غیر فطری فعل سے نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ تا ریخ گواہ ہے کہ ایک سازش کا سہا را لیتے ہو ئے محض ایک ماہ کے عرصہ میں 25 ہزار سے زائد مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لاشوں کی بے حرمتی کی گئی کئی افراد تا حال گمشدہ اور لا پتہ زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلاء ہیں ہزاروں خواتین کو درندہ صفت حیوان انتہا پسندوں اور شرانگیزوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا دنیا میں اس وقت مسلمان انتہا پسندوں کا رونا تو رویا جا رہا ہے لیکن برما میں بدھ مت کے لباس میں ملبوس ان شر پسندوں کے لیے کوئی مذمت یا انگلی کیوں نہیں اٹھا ئی جا رہی ہے دنیا میں انتہا پسندی ، دہشتگردی اور شرانگیزی و بد امنی القا عدہ کے نام پر ہو ، آئی ایس آئی ایس ، داعش ، تحریک طالبا ن ، تمل ٹا ئیگر ، شیو سینا یا دیگر ناموں سے ہو قابل مذمت اور نا قابل قبول ہے کوئی بھی پر امن معاشرہ مذہب اور ملک اسکی اجازت ہر گزنہیں دیتا ہے۔
اس سانحہ پر پو ری دنیا میں سکوت اور ایک پراسرار خاموشی ناقابل فراموش ہے ۔ برما کے حوالہ سے ہر کردار مشکوک دکھائی دینے لگا ہے عالمی میڈیا کہا ں ہے ؟ بین الا قوامی انسانی حقوق اور امن کی بات کرنے والی تنظیمات کہا ں ہیں ؟ اقوام متحدہ کا کیا کردار ہے ؟ اقوام عالم کیوں خاموش ہے ؟ منبر و محراب سے مسلمانوں کی اخوت مساوات رواداری اور انسانی حقوق کا درس دینے والے علماء دین کہا ں ہیں ؟ 53 اسلامی ریاستیں کیا کررہی ہیں ؟ عالم اسلام کا مردہ ضمیر اوآئی سی اور اسلام کے ٹھیکیدار وں نے کیوں چپ سادھ لی ہے ؟ سینکڑوں سوال با ضمیر اور با کردار ذہنوں میں گردش کرتے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں لیکن انکا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔ مسلمان حکمران محض کرسی کی جنگ اور اپنی خر مستیوں میں مبتلا ء ہیں حکومت ہو یا اپوزیشن ہر کوئی اقتدار کی ہوس اور نشے میں گم ہے۔
برما کے قریبی ممالک نے ایک اور احسان کرتے ہو ئے انتہا پسندوں سے جان بچا نے والوں کو دہشتگرد قرار دیتے ہو ئے واپس موت کے منہ میں دھکیلنا شروع کردیا وارتھو بدھست راہب نے ہٹلر اور چنگیز خان کا بھی ریکارڈ توڑ کے رکھ دیا ہے بیگنا ہ مظلوم اور نہتے انسانوں کو موت کے پروانے جا ری کیے جا رہے ہیں برمی مسلم کمیونٹی کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کو وہا ں کا شہری تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے ۔ 3 لاکھ سے زائد افراد میا نما ر چھوڑ چکے ہیں اور 25,30 ہزار سے زائد ما رے جا چکے ہیں بنگلہ دیش اور جمو ں میں پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کو بھا رت اوربنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے ملک چھوڑنے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں ۔ دنیا میں کوئی بھی امن و سکون کا داعی جہا ں اس برمی روہنگیا مسلم کمیونٹی کا ساتھ دینے کے لیے یا انکی زندگی محفوظ بنا نے کے لیے تیار نہیں ہے۔
وہاں عظیم برطانیہ کے مہذب اور پر امن معاشرے میں رہنے والی تمام کمیونٹیز کا کردار قابل ستائش ہے جنہوں نے اس انسانیت سوز واقع کی نہ صرف کھلے الفاظ میں مذمت اور مخالفت کی ہے بلکہ اس ظلم و ستم کو رکوانے کے لیے عملی اقدامات بھی اٹھا ئے گئے ہیں برٹش پاکستانی ، کشمیری، ہندوستانی ، سکھ ، عیسائی اور دیگر مذاہب نے برما کے اندر ہو نے والے ظلم و ستم اور بیگناہ افراد کے قتل کو ایک انسانیت سوز عمل قرار دیتے ہو ئے ہر پلیٹ فارم پر اسکے خلا ف آواز اور عملی اقدامات اٹھا ئے ہیںاور زبردست احتجا ج پیش کیا ہے اس حوالہ سے تحریک کشمیر برطانیہ کے قائد ین ، بنا ت المسلمین برطانیہ کی خواتین اور محمد بن قاسم کی ایک عظیم بیٹی مسلمان ، پاکستانی و کشمیری قوم کی ترجمان جواں سالہ کونسلر مریم خان کا کردار نا قابل فراموش ہے۔
یورپ کی سب سے بڑی اور برطانیہ کے دوسرے بڑے شہر کی سٹی کونسل کی تمام پارٹیز کے کونسلر ز یعنی 120 میں سے 101 اکثریتی ممبرز نے برما کے اندر ہو نے والے ظلم و جبر اور غیر انسانی فعل کو ناقابل معافی قرار دیتے ہو ئے عملی سطح پر اسے مسترد کرتے ہو ئے برطانوی دولت مشترکہ و خارجہ امور کے سیکرٹری کو ایک دستخط شدہ دستاویز جا ری کی ہے جس میں آٹھ نکا تی ایجنڈے میں برما کی اقلیتوں کے تحفظ اور دنیا میں امن کو قائم رکھنے کی یاد داشت پیش کی گئی ہے اور دنیا کے اندر بسنے والے دوسرے پڑھے لکھے با شعور اور باضمیر افراد کو یہ پیغام دیا ہے کہ یہ لوگ امن کے سفیر ہیں بین المذاہب ہم آہنگی اور امن عامہ کی بات بلا تفریق کرتے ہیں اور کسی ذاتی ، سیاسی ومذہبی مفاد کو بالاطاق رکھتے ہو ئے حقیقی امن و امان اور سکون کے خواہاں ہیں۔
بلاشبہ وہی لوگ انتہا پسندی ، دہشتگردی اور بد امنی کی مخالفت کر نے والے اور امن و امان کے متلاشی ہیں جو دوسری اقوام کے امن و سکون ،آزادی اور حقوق کا خیال رکھنے والے ہیں۔ تمام تفرقوں اور تقسیموں سے بالا تر ہو کر انسانی حقوق ، انسانیت اور عدل و انصاف کی بات کرتے ہیں خدا کرے کہ ان عملی اقدامات کو مد نظر رکھتے ہو ئے ہر کوئی برمنگھم سٹی کونسل کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہو ئے برما سمیت دنیا کے اندر ہو نے والی نا انصافی ، دہشتگردی ، انتہا پسندی اور شرانگیزی کی مخالفانہ سوچ پیدا کرے۔
تحریر : ایس ایم عرفان طاہر
موبائل : 00447925611809