تحریر : ع.م.بدر سرحدی
لاہور کے بعد رواپنڈی میں میٹرو بس منصوبہ تیزی سے مکمل ہوأ حاکم اعکےٰ کی خوشی کی انتہا، اُن کے لئے بھی خوشی ہے، جن ملوں کا لاکھوں ٹن لوہا لگ رہا، بے شک کچھ لوگوں کے لئے میٹرو سیر و تفریح کا بہترین موقع ہے مگر کچھ ایسے بھی ہیں جن کے لئے یہ عذاب ہے۔
عام طور پر اوور ہیڈ کی اونچائی ١٦،فٹ رکھی جاتی، انڈر پاسز کی اندرونی اونچائی سولہ فٹ، پنڈی سے مری جائیں ،کئی جگہوں پر اوور ہیڈ بنائے گئے ،شائد وہاں کے مکینوں نے چندے سے بنائے ہیںیا کسی نے اپنی جیب سے بنائے ہیںاُن کی اونچائی ١٦ فٹ ….،بلکہ موٹر وے پر بھی جو انٹر چینج ہیں ان کی اونچائی ٦ا فٹ ، مگر یہ فیروز پور روڈ پر میٹرو ٹریک پر جو اوور ہیڈ بنائے گئے اُن کی اونچائی بیس فٹ سے زیادہ اور کہیں ٢٠،فٹ سے بھی زیادہ ….. بلکہ اب تو اتنے ہی اونچے اوور ہیڈبنائے جا رہے ہیں۔
میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ فنی تکنیک ہے کہ میٹرو ٹریک پر اوور ہیڈ کی اونچائی ٢٠،فٹ سے زیادہ رکھی جائے بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کے زیادہ سے زیادہ لوہا کھپایا جائے اور کوئی مقصد نظر نہیں آتا ،جب دوسری طرف جانے والے بوڑھے،معذور،بوڑھی خواتین کو …….کاش وزیر اعلےٰ کو کبھی ان پر چڑھنا پڑے،مگر نہیں اُن کے لئے ایسا موقع کبھی نہیں آسکتا،ویسے بھی ابھی جوان ہیں …. یہ عذاب تو صرف سڑک سواروں کے لئے …… ،جب مجھے سڑک کے دوسری طرف جانا ہو تو انچائی دیکھ کانپ جاتا ہو ں ،کبھی انچائی کی طرف اور اور پھر اپنی طرف مجھ جیسے ہزاروں لوگو کے لئے عذاب بنا دی گئی، جبکہ ٨،دس فٹ کے انڈر پاس بھی بنائے جاسکتے اور….، .بس کی لمبائی زیادہ سے زیادہ ٥٥ فٹ ہوگی مگر سٹیشن ٢٥٠،فٹ اور اس سے بھی زیادہ بڑے بنائے گئے کیوں ؟یہ” کیوں” میں نہیں سمجھ سکا ….البتہ یہ نظر آ رہا ہے کہ اس کا مقصد ملز مالکان کا مفاد ضرور پیشِ نظر تھا ، جو کوئی بھی ہیں یا ہے۔
اگلے دس ،بیس برس کی کمائی کر لی ،اگر تو ان بوڑھوں یا پھر کبھی کسی معذور کے لئے اترنا یا چڑھنا عذاب ہے تو پھر حکومت کیا کر سکتی ،الیکٹرک سیڑھیاں لگائی گئی ہیں ،یہ ضروری نہیں کہ یہ سیڑھیاں چلتی بھی ہیں ،اب تین ماہ سے یوحنا آباد سٹیشن بند رہا الیکٹرک سیڑھیاں بھی بند بھولے بھٹکے غریب بے قصور عوام کے لئے دوسری جانب اترنا چڑھنا عذاب رہاکون کس سے فریاد کرتا ، جب سٹیشن دوبارہ کھلا تو کچھ دنوں تک یہ سیڑھیاںِ چلی اب پھر ایک بند ہے،….١٥ مارچ کے سانحہ یوحنا آباد کے بعد یوحنا آباد سٹیشن بند کر دیا گیا جس سے یوحنا آباد کے باسیوں کو تو سزا کے طور یہ درست تھا کہ ان اقلیتوںکو اتنی جرات کہ حکمران قوم کے دوافراد چہ جائے کہ وہ دشت گرد ہی تھے مار دیں انہیں اِس سے بھی زیادہ سزا ملنی چاہئے ، کہ انہیں کس نے اختیار یا حق دیا یہ سب اپنی جگہ درست ، مگر گلیکسوں ٹاؤن، حمزہ ٹاؤن ،خالق نگر اور عمر ٹاؤن کے رہائیشوں کا کیا قصور ،.میں تو میٹرو پر سورا نہیں ہو سکتا، مگر یہ ہمیشہ میرے اعصاب پر سوار رہتی ہے۔
مجھے کل ہی سڑک پار ڈسپنسری جانا تھا مگر چند وقدم کے فاصلہ کے لئے آٹو رکشا ہائر کیا کہ چڑھنا عذاب تھا، میں نے تو دکھ لکھ کر کر شئیر کر لیا ،مگر جو ایسا نہیں کر سکتے وہ بھاری بھر کم گالیاں اور کوئی بد دُعائیں دیتے کہ اب چڑھنا بھی عذاب اور پھر اگلے اسٹیشن پر اتر کر باہر نکلنا بھی عذاب ،پنڈی ،اسلام آباد کے باسیوں کو مبارک ہو ایک اچھی سواری مل گئی ہے اور ویگنوں کی لوٹ مار سے بچ گئے،مگر یہ ہیوی قسم کی بسیں اتنا گیس پھونک رہی ہیں کہ گیس کے نئے زرائع تلاش نہ کئے گئے تو اگلے پانچ دس برسوں میں غریبوں کے چولہے ضرور ٹھنڈے ہو جائیں۔
چلتے چلتے تھوڑا زکرمرحوم گورنمنٹ ٹرانسپورٹ، یا پی۔ آر۔ ٹی۔ سی ، کا ہو جائے یقینا نئی نسل کے کئے دلچسپی کا باعث ہوگا ، کہ کس طرح محض ٣٠ ،پرانی بسوں سے لاھور لوکل بس یا اومنی بس سروس نے لاہور میں جنم لیااور ساٹھ تک پورے مغربی پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ،ذرائع نقل و حمل میں ریلوے کے بعد دوسرا بڑا ادارہ تھا جسے ٥٢ برس بعد سفید ہاتھی قرار دے کر ٩٩٧ا، میں میاں نواز شریف حکومت نے تالا لگا دیا تب تیس پرانی بسوں سے جنم لینے والے عوامی ادارے کے ٢٢ ،ارب اکے اثاثے بتائے گئے ایجرٹن روڈ پر اُس کا نشان ٹرانسپورٹ ہاؤس آج بھی موجود ہے ہر شہر کے دل میں اسکے اثاثے تھے بند کر دیا …….،جب وسائل اور مسائل نے بڑھنا شروع کیا تب لوکل ٹرانسپورٹ کی ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ پہلی مرتبہ ٣١ ٩ ١ ، میں لاہور میں عوام کے لئے پرائیویٹ ترانسپورٹ چلی مگر تھوڑے ہی عرصہ بعد ناکام ہو کر بند ہوگئی ….پھر١٩٤٢، تب یہ خواص کی ضرورت تھی،نندہ اور گرین بس سروس کے اشتراک سے چلائی ، جیسا آج دیکھا جا سکتا ہے کہ میٹرو کے علاوہ پندرامختلف ٹرانسپورٹ کمپنیاں صرف لاہور شہر میں بسیں چلا رہی ہیں ،ہر ایک کا اپنا کرایہ نامہ ،کسی کا کوئی ٹائم ٹیبل جب چاہا بس چلا دی اور جب چاہا کھڑی کر دی آج یہ اُس عوام کی سواری ہے جس کی کوئی آواز نہیں… ….آج کے خواص اُس وقت کے عوام تھے، ٹرانسپورٹ جن کی ضرورت تھی،چنانچہ بدیسی حکمرانوں سے مطالبہ کیا گیا کہ سرکا ر ٹرانسپورٹ کا انتظام سرکاری تحویل لیا جائے۔
اس وقت دوسری عاملی جنگ کا زمانہ تھا جاپانی بمبار کلکتے تک مار کر رہے تھے اس لئے مطالبہ کو پذیرائی نہ ملی ، ٩٤٥ ١،میں جنگ ختم ہوئی انگریز حکومت نے اپنے غلام عوا م کے مطالبہ کوپذیرائی بخشی اور(آج کے اپنے حکمران کسی عوامی مطالبے کو منو مٹی میں دبا دیتے ہیں) لاہور میں چلنے والی تیس پرانی بسوں اور تین روٹوںکو اپنی تحویل میں لیکر ٢٢ ستمبر ٩٤٥ ١ کو پہلی سرکاری بس کرشن نگر تا آر اے بازار کے لئے چلی ،اس کے پہلے مینجر مسٹر ۔پی ۔آر ۔پوری ،مقرر ہوئے،نصف صدی سے زائد عرصہ تک عوام کی بھر پور خدمت کی یہ کوئی بہت پرانی کہانی نہیں سترے بہترے کو یاد ہوگا کہ لوگ ریگل سٹاپ پر کھڑے بس کی آمد پر اپنی گھڑی کا وقت درست کر لیتے ،اور آج…..،پورے شہر سے ہرہسپتال کو بس ٹچ کرتی تھی۔
آج میٹرو کے ٢٧کلومیٹر روٹ پر صرف ایک اتفاق ہسپتال کا اسٹیشن ،وہا ں جانے کے لئے ایک بھی مسافر نہیںاترتا، اس روٹ پر تین قدیم اورایک نیا بچوں کا ہسپتال مگر ان میں سے کسی ہسپتال کا اسٹیشن نہیں ،عورتوں کا قدیم معروف لیڈی ولنگڈن ہسپتال،اسکے اسٹیشن کا نام آزادی چوک،پچاسی سالہ گلاب دیوی اور ساتھ میں بچوں کا ہسپتال مگر نام اتفاق ہسپتال جس کا دور تک کوئی نشان نہیں آگے آئیں بڑا جنرل ہسپتال مگر اسٹیشن کس نام غازی چوک ،چند برس قبل کسی غازی چوک یا غازی روڈ کا نشان نہیں تھاجبکہ ہسپتا ل ٦٠،کے عشرے میں موجو، میری سمجھ میں تو یہ بات آ گئی شائدآپ بھی …. اور یہ نرگسیت کا مرض …یہ مضمون، تشنہ یا نامکمل کہیں، تیس پرانی بسیں بمقابلہ میٹرو، پر پھر لکھوں گا۔
تحریر : ع.م.بدر سرحدی