ہمیشہ بہت دیانت داری سے میں نے اعتراف کیا ہے کہ علم معاشیات اور اس سے جڑے معاملات کا مجھے ککھ پتہ نہیں۔ کسی صحافی کے لئے جو سیاسی امور پر لکھنے کا دعوے دار ہو،اس علم کی بنیادی شدھ بدھ مگر انتہائی ضروری ہے۔دنیا میں کسی بھی حکومت کی مقبولیت کا بنیادی انحصارویسے بھی اس حقیقت پر ہوتا ہے کہ اس نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے معاشی حوالوں سے لوگوں کو مطمئن رکھا یا نہیں۔
2008ءکے بعد سے دنیا بھر میں جو عمومی بے چینی پائی جارہی ہے اس کا اصل سبب سماجی ماہرین وہ مایوسی ٹھہراتے ہیں جو نام نہاد گلوبلائزیشن نے خلق خدا پر مسلط کررکھی ہے۔ آج سے کئی برس پہلے نیویارک ٹائمز کے مشہور کالم نگار تھامس فریڈمین نے ” دُنیا چپٹی ہے“ نامی کتاب لکھ کر اس گلوبلائزیشن کو بیان کیا تھا۔اس کتاب کے ذریعے اس نے سمجھایا کہ سستی مزدوری کی بدولت زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس میں مبتلا سرمایہ کاروں کے لئے ضروری نہیں رہا کہ وہ اپنے ہی وطن میں فیکٹریاں وغیرہ لگائیں۔اب چین اور بھارت جیسے کم وسائل مگر بے تحاشہ آبادی والے ممالک ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کو مضبوط بنارہے ہیں۔
آئی فُون ایجاد امریکہ میں ہوتا ہے۔اسے 24/7دُنیا سے رابطہ قائم رکھنے کے لئے پروگرام بھی اسی ملک میں دریافت ہوئے۔اس فون کو مگر عالمی منڈیوں میں چین کے کارخانوں میں تیار کرکے لایا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت برطانیہ جیسے ملکوں کے لئے ضروری نہیں رہا کہ وہاں کی ٹرانسپورٹ کمپنیاں ریل،بسوں اور ہوائی جہازوں میں صارفین کے لئے نشستوں کو بک کرنے کے لئے اپنے ہی ملک میں سروس سنٹرز بنائیں۔برطانیہ میں ملازمین کو مناسب تنخواہ دینا ہوتی ہے۔وہ صرف آٹھ گھنٹے کام کریں گے۔ بیمار ہوجائیں تو علاج کروانا آجر کی ذمہ داری ہے۔ حادثاتی موت کی صورت ملازم کے خاندان کو انشورنس کی بھاری رقوم بھی مہیا کرنا ہوتی ہیں۔
زیادہ سے زیادہ منافع کی ہوس میں مبتلا آجروں نے لہذا بھارت جیسے ملکوں میں کال سینٹرز قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ آپ لندن میں بیٹھے اگر برٹش ریل کے ذریعے برمنگھم جانا چاہتے ہیں تو فون اُٹھاکر اس ضمن میں معلومات حاصل کرنا چاہیں گے تو بنگلور کے کسی دفتر میں بیٹھا کوئی شخص آپ کی ”خدمت“ کرے گا۔برطانیہ اور بھارت کے درمیان ٹائم کا فرق لہذا بے معنی ہوگیا۔ دُنیا چپٹی ہوگئی جو ایک حوالے سے گویا 24گھنٹے ایک ہی ٹائم زون میں رہتی ہے۔
گلوبلائزیشن کے اس عمل ہی نے برطانیہ جیسے ملکوں میں روزگار کے امکانات کو محدود ترکرنا شروع کر دیا۔ فیکٹریاں ویران ہوگئیں۔ جو کاروباری ادارے بچ رہے ان کے لئے سستی اُجرت پر کام کرنے کے لئے پولینڈ جیسے ملکوں سے بے تحاشہ نوجوان یورپی یونین کی بدولت ملے حقوق کی وجہ سے برطانیہ آکر رہنا اور کام کرنا شروع ہوگئے۔روزگار کی عدم دستیابی ہی نے بالآخر وہ ماحول بنایا جس کی بدولت بریکسیٹ ہوا۔
حال ہی میں ڈونلڈٹرمپ جیسا متعصب اور ہر حوالے سے دیوانہ شخص امریکہ کا صدر اس لئے منتخب ہوا کہ اس نے امیروں کو امیر تر بناتے گلوبلائزیشن کے اسی عمل کے خلاف سفید فام اکثریت کے دلوں میں اُبلتے غصے کو بھرپور نفرت کے اظہار کا موقع فراہم کردیا۔فریڈمین جیسے لوگ مگر اس بات پر اب بھی مصر ہیں کہ گلوبلائزیشن کے عمل سے نجات ممکن نہیں رہی۔ انٹرنیٹ اور سمارٹ فونوں کے ذریعے روزگار کے نئے امکانات بھی دریافت ہوتے رہیں گے۔ سیاست دانوں اور حکومتوں کے لئے لہذا ضروری ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو جدید ٹیکنالوجی کو تخلیقی انداز میں استعمال کرنے والی تعلیم کا بندوبست کریں۔توانائی کے نئے اور سستے ذرائع تلاش کریں تاکہ سرمایہ کاروں کو اپنے ہی ملکوںمیں فیکٹریاں لگانے کی ترغیب میسر ہو۔
پاکستان بھی کم وسائل اور بے تحاشہ آبادی والا ایک ملک ہے۔ 90کی دہائی سے ہمارے ہاں توانائی کا بحران مسلسل اپنی جگہ موجود ہے۔سیاسی بے ثباتی اور دہشت گردی نے سرمایہ کاری کے امکانات کو مزید محدود کیا۔ کپاس ہمارے ہاں اُگتی ہے۔ دھاگہ فیصل آباد میں بنتا ہے۔کپڑا بھی زیادہ تر یہاں کی ملوں میں بنایا جاتا ہے۔ اس کپڑے سے جدید برانڈ کے ملبوسات مگر بنگلہ دیش جیسے ممالک میں تیار ہوکر امریکہ،برطانیہ اورفرانس جیسے ممالک کی دُکانوں پر بکتے ہیں۔روزگار کے دن بدن کم ہوتے امکانات ہی نے ہمارے نوجوانوں کو مایوس ہوکر انتہاءپسندی کی طرف بھی مائل کیا۔
پاکستانی اپنی سرشت میں لیکن ایک ذہین اور محنتی قوم ہے۔ ہمارے کئی نوجوانوں نے ہمت نہیں ہاری۔جدید دور کے تقاضوں کو سمجھا اور کسی بھی نوعیت کی حکومتی مدد کے بغیر انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز کی سہولتوں کو استعمال کرتے ہوئے کئی نئے کاروبار بھی متعارف کروادئیے۔
گزشتہ چند مہینوں سے پنجاب اور اسلام آباد ایسے ہی چند نوجوانوں کی بدولت ٹیکسی سروس کا ایک نیا نظام متعارف ہوا۔ میں دو ہفتے قبل تک اس نظام کے بارے میں قطعاََ لاعلم تھا۔ایک روزمگر میری موجودگی میں میرے ایک دوست نے اپنی بیوی کو دفتر سے گھر پہنچانے کے لئے اپنا فون استعمال کیا۔ تھوڑی دیر میں ایک گاڑی اس کی بیوی کو لینے پہنچ گئی۔ ڈرائیور اور گاڑی کے اس کی بیوی تک پہنچنے سے پہلے ڈرائیور کا نام اور گاڑی کا نمبر بھی میرے دوست کو مل چکا تھا۔ گاڑی اس کی بیوی کے پاس پہنچی تو اسے معلوم ہوگیا۔گھر پہنچنے کی اطلاع بھی اسے فون ہی کے ذریعے مل گئی۔ اس پورے عمل سے میں بہت متاثر ہوا۔ تجسس میں تفصیلات معلوم کیں تو اندازہ ہوا کہ دنیا کے جدید ترین ممالک میں کئی برسوں سے جاری ٹیکسی سروس والا نظام اب پاکستان بھی پہنچ چکا ہے اور خوب پھل پھول رہا ہے۔ مجھے یہ سب جان کر انتہائی خوشی ہوئی۔
منگل کی صبح مگر ٹی وی سکرینوں کے ذریعے اطلاعات آنا شروع ہوگئیں کہ گڈگورننس کی علامت گردانی پنجاب حکومت نے جس کے سربراہ بزنس فرینڈلی ہونے کی شہرت بھی رکھتے ہیں اس سروس کی راہ میں ریگولیشن کے نام پر رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردی ہیں۔ پنجاب حکومت کے ترجمانوں نے اس اطلاع کے پھیل جانے کے بعد جو وضاحتیں پیش کیں وہ عذرِ گناہ جیسی ناکارہ اور میرے حساس دل کو جلانے والی تھیں۔
اپنے ٹی وی پروگرام میں اس اطلاع کا ذکر شروع کیا تو ان گنت لوگوں نے فون کے ذریعے دہائی مچادی۔ اس پروگرام کے ختم ہونے کے بعد بھی رات گئے تک کئی نوجوان ٹویٹر اور ایس ایم ایس کے ذریعے مجھے بتاتے رہے کہ کیسے چند دوستوں کے ساتھ انہوں نے قرض پر گاڑی لے کر ٹیکسی سروس کے نئے نظام میں حصہ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔وہ بہتر روزگار کے امکانات معدوم ہوجانے کی اطلاع سے بہت مایوس سنائی دئیے۔ کئی ایک نوجوان ایسے بھی تھے جن کے پاس پہلے سے روزگار تھا۔ اضافی آمدنی کی طلب میں لیکن وہ بھی اس نظام کا حصہ بننے کے منصوبے بنارہے تھے۔
مجھ سے رابطہ کرنے والے نوجوان اپنی مایوسی کے اظہار کے بعد غصے اور بے چینی سے صرف یہ معلوم کرتے رہے کہ حکومت نے ان پر روزگار کے دروازے بند کرنے والا یہ فیصلہ کیوں کیا ہے۔ کاش میں انہیں کوئی تسلی بخش جواب دے سکتا۔ ایسا جواب اگرچہ پنجاب حکومت کے ایک نابغہ سمجھے جانے والے آئی ٹی ایکسپرٹ کی طرف سے کم از کم میرا یہ کالم لکھنے تک نہیں آیا تھا۔ شنید ہے کہ شہباز صاب نے فیصلہ واپس لینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ انگریزی محاورے والا نقصان مگر ہوچکا ہے۔ اپنی ذہانت اور مشقت سے حلال کی روٹی کمانے کے خواہاں نوجوانوں کو غلط یا صحیح بنیادوں پر یہ پیغام ملا ہے کہ شہباز صاب کو صرف بڑی گاڑیوں کے مالکوں کی آسانی کے لئے سنگل فری روڈ،انڈرپاسز اور فلائی اوورز بنانے ہیں۔متوسط طبقے کے لئے انہوں نے میٹروبسیں متعارف کروادی ہیں۔ان کے علاوہ ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام انہیں ہرگز گوارہ نہیں۔