تحریر: عمران احمد راجپوت
لوگ کہتے ہیں ٹوٹ جانے سے جھک جانا بہتر ہے، ہم کہتے ہیںجھُک جانے سے ٹوٹ جانا بہتر ہے، کیونکہ جھک کر جینے میںآپ زندگی کی اصل لذت اور مقصد سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاتے ہیں۔اِس لئے قارئین ایک لمبی بے مقصد لاحاصل زندگی گزارنے سے بہتر ہے انسان چھوٹی ہی سہی لیکن ایک با مقصد سحر حاصل زندگی گزارے۔ ٹیپو سلطان (1750-1799) جیسے نڈر بہادر اور جانباز سپاہی نے شاید اِسی تناظر میںاپنے آخری لمحات میں ٹوٹتی سانسوں کے ساتھ یہ الفاظ ادا کئے تھے “شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزارسالہ زندگی سے بہتر ہے” یہ الفاظ اپنی حقیقت پسندی کے ساتھ رہتی دنیا تک کے لئے اَمر ہوگئے۔
اِسی طرح لاتنی امریکی ریاست میکسکوکے مشہور نیشنلسٹ/ فریڈم رہنما ایمیلیانو زپاٹا(1879-1919)کاقول ہے “کسی کے آگے جھک کر جینے سے اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر مرنا بہتر ہے” قارئین آپ غور کریں تودنیا کے اِن دونوں عظیم انسانوں کی عمر ِحیات کوئی زیادہ طویل نہیں ایک کی کل عمر49 سال اور دوسرے کی 40 سال بنتی ہے دونوں ہی بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ہی اِس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے ،لیکن ہر ڈھڑکتے دل میں خود کو قیامت تک کے لئے زندہ کرگئے ۔ایسے انسان کبھی نہیں مرتے وہ مر کر بھی امر رہتے ہیںکیونکہ وہ خود مر کر دوسروں کو جینا سکھا جاتے ہیں وہ یہ بتلا جاتے ہیں کہ دوسروں کے لئے جیناہی دراصل زندگی کا مقصد ہے وہ اپنے نفس کی پرستش نہیں کرتے وہ معاشرتی تمدن کی پرورش کرتے ہیں جمود کو توڑ کر آگے برھنے کی تلقین کرتے ہیں۔
لیکن قارئین آج برعکس اِس کہ ہمارے معاشرے میں نفس پرستی کا رجحان عام ہوچکا ہے اور خواہشات ِعَلَم و حریص پورے معاشرے میں سراعیت کرچکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان افراتفری اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا نظر آتاہے۔آج ایک جدید ترقی یافتہ دور میں انسان کا سب سے بڑا دشمن کوئی اور نہیں بلکہ خود انسان ہی ہے ۔جو معاشرے میں ایک ایسے بے لگام کھوڑے کا کردار ادا کررہا ہے جسے قابو میں لانا نہایت ہی مشکل ہوجاتا ہے اور ہرچند اپنی جان کا دشمن بن بیٹھتا ہے۔ بحیثیت انسان ہونے کے ناطے معاشرتی اقدار اور تہذیب و تمدن کو اصلاحی احوال سے قائم کرنے کے لئے ہر دور میں اہلِ دانش اپنا کردار ادا کرتے آئے ہیںتاکہ معاشرہ اُصولی بنیادوں پر پرورش پا سکے۔
امن و آشتی کا گہوارہ بن سکے انسانی تہذیب و تمدن کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے کائنات کے خلوتیانِ راز وں کو جانا جاسکے ۔لیکن آج دنیا کی تمام تہذیبوں سے یہ عنصر ناپید ہوچکا ہے سوائے چند ایک مغربی قوموں کے جنھوںنے کم ازکم عالمِ انسانی کے لیے جدید راہیں تو کھولیں اور تعمیرو ترقی میں کچھ نام تو پیدا کیا ، مسلمانوں کی موجودہ حالت ِ زار پر سوائے رونے اور ندامت کے کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ حالانکہ پیغمبرِاسلام محمدۖ کا خالص اسلامی تصور بہترین اعلیٰ اقدار کا ضامن ہے جوکسی بھی معاشرتی ڈھانچے کوجدید خطوط پر استوارکرنے کی بہترین صلاحیت رکھتاہے ۔لیکن آج کے مسلمان کائنات کے امین کا وہ تصورِ اسلامی وہ فکرِ تعمیری وہ درسِ ہمہ گیری بھولے بیٹھے ہیںخود کو عضو بے کار بنائے ہوئے ہیںحال یہ ہے کہ جو کام اُمتِ مسلمہ کے ذمہ تھا وہ اغیارسنبھالے ہوئے ہیں۔
قلب میں سوز نہیں ،روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمھیں پاس نہیں۔۔۔اقبال
قارئین آج جو اُمت کا حال ہے اُس پر اقبال کے یہ اشعار بالکل فِٹ ہوتے ہیں۔
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن ،تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن ، تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تم ہو
سچ پوچھیں تواکثریت کی ذہنی کیفیت کا حال یہ ہے اقبال کے اِن اشعار پر کسی کو غصہ تو آسکتا ہے لیکن عقل نہیں۔دنیا کے تمام مسلم ممالک کی صورتحال کا جائزہ لے لیجئے فرقوںمسلکوںمیںبٹامسلمانوںکاٹھاٹھے مارتا سمندر تو نظر آئے گا لیکن اسلام نہیں۔ جس کی اصل وجہ نفس پرستی میں مبتلا یہی انسان ہے جو اپنے نفس کا مرید بن کر فکرِ انسانی سے غافل ہوچکا ہے ۔ اب اسے اپنے آگے کچھ نظر نہیں آتا ،صرف اپنا اُلو سیدھا کرنا آتا ہے اِسے اب انسان اور انسانیت کے نام سے کوئی غرض نہیں اسے صرف اپنے لئے جینا ہے اپنے لئے مرنا ہے اور صرف” اپنی” آخرت سنوارنی ہے ۔قارئین یہیں قلم روک کر ہم اپنے کالم کا اختتام کرتے ہیں کیونکہ مزید لکھا شاید ہضم نہ ہوپائے ویسے ہی کچھ دوستوں کی ہمارے
بارے میں رائے اِس مصرے کے مصدق ہے۔
کیا حال پوچھتے ہو میرے کاروبار کا
آئینے بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں
تحریر: عمران احمد راجپوت
CNIC: 41304-2309308-9
Email:alirajhhh@gmail.com
حیدرآباد، سندھ