اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ انتخاب میں حصہ لینے سے متعلق کیس میں اپنے جواب میں کہا ہے کہ آرٹیکل 62 کے تحت اشتہاری قرار دینا کسی بھی شخص کی انتخابی اہلیت ختم نہیں کرتا۔
اسینیٹ انتخاب میں حصہ لینے کے خلاف عدالت عظمی میں دائر درخواست کا جواب جمع کروا دیا ہے۔ 16صفحات پر مشتمل تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ اشتہاری قرار دینے سے بنیادی آئینی حقوق ختم نہیں ہوتے، انتخابات کے لئے اہلیت کا معیار آرٹیکل 62 میں دیا گیا ہے جب کہ کسی عدالت کی طرف سے اشتہاری قرار دینا آرٹیکل 62 کے تحت اہلیت ختم نہیں کرتا۔
اسحاق ڈار کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں درخواست خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہیں اشتہاری قرار دینے کے خلاف اپیل زیرالتوا ہے، درخواست گزار کی طرف سے اٹھائے گئے نکات الیکشن سے پہلے اٹھائے جاسکتے ہیں، اس بنا پر درخواست گزار کی اپیلیں ہائی کورٹ سے بھی خارج ہوئیں، الیکشن سے پہلے کے اعتراضات انتخابات کے بعد نہیں اٹھائے جا سکتے اور درخواست گزار نے الیکشن کے بعد متعلقہ فورم سے رجوع نہیں کیا جب کہ درخواست گزار معاملے میں متاثرہ فریق بھی نہیں ہے۔
عدالت عظمی کا آگاہ کیا گیا ہے کہ اسحاق ڈارکے کاغذات نامزدگی پر اعتراضات بینک اکاؤنٹ کے حوالے سے عائد کیے گئے تھے جس پر ریٹرننگ افسر نے کاغذات مسترد کیے تو اس کے خلاف اپیل دائر کی گئی، جس میں دونوں نشستوں کے لئے کاغذات نامزدگی درست قرار پائے۔
واضح رہے کہ سینیٹ انتخابات میں اسحاق ڈار کے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی گئی تھی جس کی پہلی سماعت پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا گیا تھا۔