لاہور (ویب ڈیسک) نیویارک ٹائمز کے معروف صحافی کے ایک حالیہ انکشاف نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا ہے ۔ا س کے بقول؛ نیو یارک ٹائمز نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے سمیت دوسرے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو احساس ہے کہ دفاعی اور سٹرٹییجک معاملات کے حوالے سے نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کوئی بھی سٹوری یا خبر دینے سے پہلے اس کی کاپی ‘وائٹ ہائوس اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بھیج کر اس کی منظوری لینے میں کوئی حرج نہیں اور اکثر ایسی سٹوریز جو امریکہ ہی نہیں ‘بلکہ دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیتی ہیں ‘ جس سے لگے کہ امریکی مفادات پر زد پڑ جائے گی‘ وہ باقاعدہ ‘سی آئی اے‘ کی پلانٹ کی ہوتی ہیں ‘ جبکہ امریکہ کے مقابلے میں دنیا کا میڈیا اپنے ہی ملک کی تباہی پھیرنے ‘اپنے ممالک کو نقصان پہنچانے ‘اقوام عالم میں بد نام کرنے کیلئے ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں سوچتے کہ ان کے پاس جو خبر پہنچائی گئی ہے‘ اس کی اپنے با خبر اداروں سے تصدیق ضروری ہے۔ ممکن ہے کہ پاکستان کے اندر سے جس کسی نے بھی کوئی خبر لیک کی ‘ وہ کسی دشمن ملک کی ایجنسی کیلئے اپنی اس حیثیت کو بطورِ کور استعمال کر رہا ہو۔اکثر یہ ہواہے کہ ملک کے قومی اداروں نے تمام میڈیا کے گروپس کو بلا کر ان سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ آج کل ‘دنیا بھر میں میڈیا وار سے ریاستوں اور اداروں کو کمزوربنایا جا رہا ہے۔ آپ جو چاہے کریں ‘ لیکن ؛اگر ملکی مفادات کے متعلق کوئی خبر ہو تو اسے شائع کرنے یا آن ائیر کرنے سے پہلے‘ اس کی تصدیق کر لیں ‘تو یہ آپ کے اور ملک کیلئے بہتر ہو گا ‘لیکن اتنی سے بات سنتے ہی باہر نکل کر ایک مبینہ میڈیا گروپ کے چند لوگوں نے یہ کہہ کر آسمان سر پر اٹھا لیا کہ میڈیا پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں ۔ اگر‘ پابندیاں ہی لگانی تھیں‘ تو ڈان لیکس کی مثال سب کے سامنے ہے کہ کس طرح اپنے ہی ملک کے سکیورٹی اداروں کو دنیا کے سامنے کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا۔اور جب اس خبر کا پوسٹ مارٹم ہوا تو اس کے اندر سے سوائے جاتی امراء کی بدبو دار ہوا کے اور کچھ نہ نکلا۔آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 اور 1973 آج بھی اسی طرح موجو دہے‘ جسے غلام محمد سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کے تمام جمہوری حکمرانوں نے پوری شدت سے استعمال کیا ‘لیکن گزشتہ دس برسوں میں اس ملک کے مفا دات کو سابق حکومت کے کہنے پراور اکسانے پر کس کس طریقے سے نقصان نہیں پہنچایا گیا؟ملک کے دفاعی معاملات کے خلاف کیا کیامن گھڑت کہانیاں نہیں گھڑی گئیں؟اس کے با جو دپاکستان کے قومی اداروں نے اپنے خلاف ہر وار کو خاموشی سے سہتے ہوئے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کا فیصلہ مئی میں ہی ہو چکا تھا‘ لیکن اسے دونوں ممالک کی قیا دت تک ہی محدود رکھا گیا ‘لیکن جیسے ہی جولائی کے اوائل میں یہ خبر آئی‘ تو پاکستان دشمنوں کے ہوش اڑ گئے کہ یہ کیا ہوا ؟پہلے تو اسی مبینہ گروہ نے اپنا پورا زور لگا کر یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ امریکہ نے تو بلایا ہی نہیں ‘وہ تو سوائے بھارت اور مودی کے کسی کو منہ ہی نہیں لگاتا اور اس کیلئے انہوں نے اپنے ”ڈیوڈ فراگ‘‘ کو آگے کر دیا‘ جس نے جھوٹ اور غلاظت اپنے منہ سے نکال نکال کرپاکستان کے مفادات پر پھینکنی شروع کر دی۔کہا جا رہا ہے کہ جج کی مبینہ ویڈیو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اس کیلئے سجن جندال کے نمک خواروں نے اپنے میڈیا ہی نہیں‘ بلکہ اپنے ہم خیال ساتھیوں کا سہارا بھی لیا۔ان کی کوشش یہ تھی کہ امریکی کانگریس اور سینیٹ کے علا وہ ان کے تھینک ٹینک کو یقین دلا یا جائے کہ تم کس ملک کی قیادت کو بلا رہے ہو‘ جو میڈیا پر پابندیاں لگاتے ہیں‘ جو میڈیا کو دھمکیاں دیتے ہیں‘ لیکن سب نے دیکھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ” رائ‘‘ کی یہ تمام سازشیں اپنی موت آپ مر رہی ہیں ۔