پچھلے سال اگست میں جب سترہ سالہ سبیکا شیخ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر،سانتا فی پہنچی تو بہت پُرجوش تھی۔ وہ یہاں پاکستان سے پڑھنے آئی تھی۔پاکستانی بچی ایک سرکاری امریکی پروگرام’’کینیڈی لوگار یوتھ ایکسچینج اینڈ سٹڈی‘‘کے تحت امریکا آئی۔
اس منصوبے کا حصہ بن کر مسلم آبادی والے ممالک کے طلبہ وطالبات ایک سال کسی امریکی تعلیمی ادارے میں گزارتے ہیں۔مدعا یہ ہے کہ وہ امریکی تہذیب وثقافت سے روشناس ہو جائیں۔یہ مختلف رنگ،نسل ومذہب کے انسانوں کو قریب لانے کا عمدہ طریق کار ہے۔سبیکا کا تعلق کراچی سے تھا۔والد کاروبار کرتے ہیں۔وہ امریکا پہنچتے ہی سانتا فی ہائی اسکول میں تعلیم پانے لگی۔اسے ایک امریکی جوڑے،جیسن اور جولین کے گھر ٹھہرایا گیا۔سبیکا ہنس مکھ لڑکی تھی۔وہ آتے ہی اسکول میں ساتھی طالبات اور امریکی جوڑے کے اہل خانہ سے گھل مل گئی۔
اگلے ماہ کی 9تاریخ کو سبیکا نے وطن واپس آ نا تھا۔وہ ایک ایک دن گن رہی تھی۔گو اس نے امریکا میں پُرلطف وقت گذارا تھا مگر اب والدین اور بہن بھائی کی طویل جدائی نے اسے بے تاب کر دیا تھا۔وہ جلد از جلد اپنے گھر والوں کی محبت وخلوص میں بھیگی پھوار میں بھیگنا چاہتی تھی۔بدقسمت سبیکا کو خبر نہ تھی کہ موت دبے پاؤں اس کے تعاقب میں ہے۔18 مئی کو انتہا پسندانہ نظریات سے متاثر اور نفسیاتی طور پہ متزلزل شخصیت کے مالک ایک طالب علم،دیمیتروس نے سانتا فی اسکول میں فائرنگ کر دی۔اسی حملے میں سبیکا شہید ہو گئی۔اس کے ساتھی سات طلبہ وطالبات اور دو اساتذہ بھی جان بحق ہوئے۔
بیٹی اپنے اہل خانہ سے ملنے کو بے تاب تھی تو والدین بھی اپنی لاڈلی کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔جب انھیں اس کی شہادت کا علم ہوا تو گویا ان پہ پہاڑ ٹوٹ پڑا۔صدمے نے ہوش وحواس اڑا دئیے۔یوں نفرت کے جذبے نے والدین کو اپنی پیاری بیٹی سے جدا کر ڈالا۔پھر انھوں نے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ ہماری بچی اللہ تعالی کی دی ہوئی رحمت تھی،وہ اس نے واپس لے لی۔20 مئی کی صبح امریکی شہر ہوسٹن میں سبیکا کا جنازہ پڑھا گیا۔تب اشکبار والدین کے علاوہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔اس موقع پر سبیکا کے امریکی ’’والدین‘‘نے بھی تعزیتی تقریب سے خطاب کیا۔دونوں میاں بیوی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور بولتے ہوئے زبان لڑکھڑا رہی تھی۔
مسٹر جیسن نے بتایا’’سبیکا ہمارے پاس آتے ہی بے تکلف ہو گئی۔میری ایک بیٹی ہمارے ساتھ رہتی ہے۔وہ تو سبیکا کی گہری دوست بن گئی ۔آپ یقین جانیے،میں سمجھتا ہوں کہ سبیکا کی شکل میں خدا نے ہمیں اپنا بہترین تحفہ بھجوایا تھا۔ہم اس سے پیار کرنے لگے۔وہ بھی ہمیں بہت چاہتی تھی۔جب رمضان شروع ہوا اور وہ روزے رکھنے لگی تو ہم نے اس کی بھرپور مدد کی۔وجہ یہی کہ ہم محبت کے انمول بندھن سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے تھے۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ سسکیاں بھرنے لگے۔
اس کے بعد جولین نے تعزیتی کلمے کہے۔وہ اس شال میں ملبوس تھیں جو حالیہ مدرز ڈے کے موقع پر سبیکا نے انھیں تحفتہً دی تھی۔وہ مخصوص امریکی لہجے میں گویا ہوئیں’’سبیکا ہمارے خاندان کا جزو بن گئی تھی۔اس کے جدا ہونے سے ہمیں لگا کہ کسی نے ہمارا بازو کاٹ دیا۔آج ہم سبھی اس لڑکی کے لیے آنسو بہا رہے ہیں …وہ آنسو جو سب انسانوں کی آنکھوں سے ایک جیسے نکلتے ہیں،وہ رنگ،نسل ،ذات کی پابندیوں سے ماورا ہوتے ہیں۔‘‘
سبیکا بڑی ذہین،قابل اور پڑھائی میں ہوشیار بچی تھی۔سبھی کو اس سے اعلی توقعات وابستہ تھیں۔مگر نفرت کے زہر میں ڈوبی گولیاں زندگی سے بھرپور سبیکا کو چاٹ گئیں جو ملک وقوم کے لیے کارنامے انجام دینا چاہتی تھی۔اس نے حسین خواب دیکھ رکھے تھے مگر گن کلچر کا نشانہ بنے دیس میں وہ کرچی کرچی ہو گئے۔امریکی گن کلچر نے ایک معصوم پاکستانی بچی کی بھی جان لے لی۔امریکی اسکولوں میں فائرنگ کے واقعات معمول بن چکے۔
اہم وجہ اسلحے کی فراوانی ہے۔اسلحہ سازکمپنیاں دونوں امریکی سیاسی جماعتوں کو بھاری چندہ دیتی ہیں۔اسی لیے جو بھی جماعت حکومت سنبھالے،وہ اسلحے کی کھلے عام خرید وفروخت پر پابندی لگا کرکمپنیوں کو ناراض کرنے سے اجتناب کرتی ہے۔دوسری صورت میں وہ بھاری رقم سے محروم ہو جائے گی۔گویا امریکا میں گن کلچر پھیلنے کی وجہ لالچ اور سیاسی مفادات ہیں جو اب تک سیکڑوں بچے بچیوں کی زندگیوں کے چراغ گل کر چکے۔