تحریر : سید صفوان غنی
شیطانوں کی میٹنگ چل رہی ہے۔ ابلیس اپنی مسند پر بیٹھا تمام افسرانِ شیطان سے رپورٹیں لے رہا ہے۔
غلام ابن ابی:سرکار میرا محکمہ بڑا زبردست کام کر رہا ہے۔ہمارے محکمے کا ہر فرد بڑا فعال ہے۔ میں نے اپنے محکمہ یعنی ”محکمۂ انتشار” کو مزید کئی حصوں میں منقسم کر دیا ہے۔
١)’شعبۂ مسلکی انتشار’ کا کام دیوبند، ندوہ،نجد، اجمیر سے لے کر تمام حساس علاقوں تک وسیع کر دیا گیا ہے۔ہمارا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ایک صد سالہ منصوبہ بندی پروگرام کے ذریعہ ہم نے احناف اور اہل حدیث کو ایک دوسرے سے متنفر کر دیا ہے یہاں تک کہ اکثر ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک پڑھنا گوارا نہیں کرتے۔
٢) ‘شعبۂ انتشار لسانی’پنجابی، سندھی، بلوچستانی، ہندی، بنگلہ، انگریزی داں اور اردو داں کے درمیان خاصہ سرگرم ہے۔ کوئی اقبال اور ابن صفی کو اسلامی کہہ کر اردو ادب میں جگہ دینے کو تیار نہیں تو کوئی ذاکر نائک کی خراب اردو پر تنقید کرتا ہے۔ ایک صاحب کو ہم نے ایسا بہکایا کہ وہ دجال کا فتنہ بتاتے بتاتے خود اس کا شکار ہو گئے اور اوٹ پٹانگ لکھنے لگے۔
٣) ‘شعبہ برائے خاندانی انتشار’ کے تحت ہم نے ‘اولڈ ایج ہاوس’ کی تجویز پاس کروا دی ہے۔ اس کے علاوہ طلاق، جہیز، ٹی وی سیریل وغیرہ کے ذریعہ ہم اپنے کام میں اور تیزی لانے کی کوشش میں ہیں۔
(غلام ابن ابی اپنی جگہ پر بیٹھ جاتا ہے۔)
شہوت شاہ: حضور ہمارے محکمہ کا کام اتنا تیز ہو گیا ہے کہ ہمیں یقین نہیں ہوتا کہ یہ وہی محکمہ ہے جسے ہم کبھی ‘محکمہ ہوائے نفس’ کے نام سے جانتے تھے۔ جب سے اس کا نام بدل کر ”محکمہ برائے جنسی بے راہ روی” رکھا گیا ہے اس نے کافی کام کیا ہے۔ اس کے لئے ہمیں انسانوں کا بھی شکرگزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے انٹرنیٹ اور موبائیل وغیرہ کے ذریعہ ہمارے کام کو آسان کیا ہے۔
(وزیر اپنی جگہ پر بیٹھنے کی اجازت مانگتا ہے جسے جنابِ ابلیس منظور کر لیتے ہیں۔)
کلب یزید: ہمارا شعبہ تنزلی کا شکا ر ہو رہا تھا لیکن عالی جناب ابلیسِ ملعون و مردود و منحوس کی دعا کی بدولت اب اپنی رفتار پکڑ چکا ہے۔ اسے پاکستا ن میں خاطر خواہ کامیابی ملی ہے۔اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ہمیں شام بلکہ پورے بلاد ِ شام میں سنّیوںاور شیعوں کو لڑانے میں کامیابی ملی ہے۔اس میں ہماری مدد امریکی اور روسی بھی کر رہے ہیں۔ ہمارا کام ہندوستان میں تھوڑا کمزور ہے لیکن اگر آپ لوگوں کی دعا شامل حال رہی تو یہاں بھی ہم کامیاب ہوں گے۔
(ابلیس اپنی مسند نحوست سے اْٹھتا ہے اور بارعب انداز میں سب پر ایک طائرانہ نظر دوڑانے کے بعد پوچھتا ہے۔)
ابلیس:آپ تمام وزرائے شیطانی نے اپنے اپنے کارنامہ ہائے بدی بیان کر دیے۔ اب آپ سبھی نمائندگان یہ بتائیں کہ رمضان کے تعلق سے آپ لوگوں کا کیا منصوبہ ہے؟چونکہ ہم سبھی اب قید میں ہوں گے اس لئے اگلے ایک مہینہ آپ کی کابینہ کا کام کیسے چلے گا؟
غلام ابن ابی: ہمارے ذمہ داروں نے انسانوں کو ابھی سے ہی یہ باور کروا دیا ہے کہ پانچ روزہ تراویح پڑھ کر کاروبا ر میں لگ جائیں ورنہ بہت خسارہ ہوگا۔اس کے علاوہ لڑکوں میں کیرم کا جوش بھی ہم نے پیدا کر دیا ہے۔ہوٹل والے اس بات پر رضامند ہو گئے ہیں کہ وہ صبح میں ہوٹل کھولے رکھیں گے۔ایک اہم بات یہ کہ نئی نسل کے روشن خیال نوجوانوں کو ہم نے روزہ کے نقصانات سے آگاہ کر دیا ہے اور وہ اب روزہ نہیں رکھتے۔ لیکن اس معاملے میں پور ے طور پر کامیابی نہیں مل پا رہی۔
شہوت شاہ:بہت افسوس ہوتا ہے کہ گیارہ مہینے تو ہم زبردست کام کر لیتے ہیں لیکن ایک مہینہ قید کے دوران انسانوں سے ہمارا تعلق بالکل منقطع ہو جاتا ہے۔ رمضان سے پہلے ہم لاکھ حکمت عملی سے کام لے کر اْنہیں ورغلائیں لیکن رمضان میں یہ روزہ دار ہماری پوری محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ قید سے رہائی کے بعد ہمیں از سرِ نو کام شروع کرنا پڑتا ہے۔
کلب ِ یزیدکھڑا ہی ہوتا ہے کہ تبھی باہر سے شور و غل کی آوا ز آنے لگتی ہے۔ دروازہ پر دستک ہوتی ہے اور پھر اچانک دروازہ ٹوٹ جاتاہے اور سیکڑوں فرشتے اندر داخل ہو جاتے ہیں۔
ابلیس: ٹھہرو، ہمیںمہلت دو، ابھی رمضان شروع نہیں ہواہے۔
ایک فرشتہ: باہر چلو، تمہیں چاند دکھاتے ہیں۔
تحریر : سید صفوان غنی
رابطہ:8750455905