کراچی: پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین کا کہنا ہے کہ 2023 تک جاری حسابات کا خسارہ ساٹھ ارب ڈالر تک پہنچنے کا تخمینہ ہے جب کہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے چالیس ارب ڈالربھی درکار ہوں گے۔ حکومت کو 2023 تک مجموعی طور پرایک سو ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی جو پاکستان کے جی ڈی پی کا تیسرا حصہ ہے۔ ٹیکس میں جتنا چاہے اضافہ کر لیا جائے اور اقتصادی پالیسیوں میں جو بھی تبدیلیاں کی جائیں، ایکسپورٹ میں اضا فہ کئے بغیر یہ ادائیگیاں ممکن نہیں ہیں اس کے ساتھ ساتھ قرضوں کو ری شیڈول کرنا ہی سب سے بہترین آپشن ہے۔میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کو چار سال تک دو دھاری تلوار پر چلنا ہو گا۔ حکومت اپنے اخراجات کم نہیں کر سکے گی اور نہ ہی موجودہ حالات میں دفاعی اخراجات میں کوئی کمی ممکن ہے اس لئے قرضوں کی ادائیگیوں کا سارا ملبہ ٹیکس کے نظام پر ہی گرے گا۔ زرعی شعبہ، پراپرٹی سیکٹر، سٹاک ایکسچینج، چھوٹے کاروبار اور پروفیشنلز کو ٹیکس نیٹ میں لانا بھی مشکل کام ہو گا مگر یہ کڑوی گولی ہر حال میں نگلنا پڑے گی ورنہ ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ماضی کی کئی حکومتوں نے آئی ایم ایف سے نجکاری کے تحریری معاہدے کئے جن پر عمل نہیں کیا گیا۔
موجودہ حکومت کے لئے بھی ناکام اداروں سے جان چھڑانا مشکل ہو گا مگر انھیں مصنوعی طور پر زندہ رکھنے کے لئے ہر سال 600 ارب روپے درکار ہیں جن کا انتظام ناممکن ہو گا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ غیر ملکی قرضوں میں سے بیس ارب ڈالرچین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پیرس کلب کو واپس کرنے ہیں تاہم اگر یہ تمام ممالک قرضہ کی ادائیگی پانچ سال کے لئے موخر کر دیں تو پاکستان کوچند سال کے لئے بڑا ریلیف مل جائے گا جس سے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رہیں گے۔ ملٹی لیٹرل ادارے کبھی بھی پاکستان کاقرضہ ری شیڈول نہیں کریں گے مگر آئی ایم ایف کی وجہ سے پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کے قابل بنانے میں دلچسپی لیں گے اور دس ارب ڈالر تک کا مزید قرضہ دے دیں گے۔ پاکستان میں اندھا دھند قرضے لینے کے خلاف ایک لولا لنگڑا قانون موجود ہے جسے ختم کر کے سخت قانون بنایا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی ترقی کے نام پر ملک و قوم کا سودا کرنے کی ہمت نہ کرے۔یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ 9 ماہ کے دوران معاشی محاذوں پر چند غلطیاں تسلیم کرتے ہوئے کاروباری طبقے کو یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت اپنی توجہ ماہانہ بنیاد پر برآمدات بڑھانے اور ٹیکس میں اضافے کے دو ترجیحی شعبوں پر کام جاری رکھے گی۔
اجلاس میں وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں گورنر اسٹیٹ بینک نے یقین دہانی کرائی کہ ایکسچینج ریٹ ایکدم گرنے کی اجازت نہیں ہوگی جیسا کہ توازن تقریباً حاصل کرلیا گیا۔ ذرائع نے گورنر اسٹیٹ بینک کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ڈیمانڈ سپلائی پر مبنی مارکیٹ ایکسچینج ریٹ کا تعین کرے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف سطح کے معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ فنڈ پاکستان کی جانب سے قابل قبول شرائط پر بیل آؤٹ پیکج دینے پر رضامند ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ چند فیصلے جلد لے لینے چاہئے تھے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے معیشت پر مکمل توجہ دی جائے گی۔ اجلاس میں وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ، مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی، پی ٹی آئی سینیٹر محسن عزیز اور لاہور اور کراچی کی کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔