لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے نیب کی جانب سے تفتیش کیلئے بلانے کو بدنیتی پر مبنی عمل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صرف قانون کی حکمرانی کے لیے پیش ہوا۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی میں کرپشن کے الزام میں نیب لاہور کے سامنے پیش ہوئے جہاں ان سے ڈیڑھ گھنٹے تک تفتیش کی گئی۔ پیشی کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا کہ نیب کا تفتیش کیلئے بلانا بدنیتی پر مبنی ہے، یہ نہ نیب کے مینڈیٹ میں ہے اور نہ ہی کوئی اچھا طریقہ ہے، خود نیب کورٹس کے فیصلے موجود ہیں کہ فریق کو نہ بلائیں اور لکھ کر جواب پوچھ لیں، اگر میں نیب کورٹ نہ جاتا تو لکھ کر اپنا جواب بھیج سکتا تھا، لیکن اس کے باوجود میں نے فیصلہ کیا کہ قانون کی حکمرانی کیلئے خود کو نیب کے حوالے کروں گا، میری نیب کے ساتھ اچھے انداز میں ڈیڑھ گھنٹہ تک مڈبھیڑ ہوئی۔
ہباز شریف نے کہا کہ نیب نے مجھ سے تین سوال کئے، جب کہ نیب چیئرمین نے 56 کمپنیوں کا ریکارڈ منگوالیا ہے، کمپنیوں کی نگرانی کرنا حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے اور مختلف منصوبوں کا جائزہ لینا ہوتا ہے، مجھ پر قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا، حالانکہ میں نے قوم کا پیسہ بچایا، اگر قوم کا پیسا بچانا اور کرپشن کا راستہ روکنا جرم ہے تو میں یہ جرم دوبارہ کروں گا، میں نے نیب سے پوچھا کہ کیا آپ نے خیبرپختون خوا اور سندھ سے بھی پوچھا کہ انہوں نے کمپنیاں کیوں بنائیں تو نیب کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا، رائیونڈ روڈ کیس 2014 میں بند کردیا گیا تھا جسے دوبارہ کھول دیا گیا، اگرعوام کے وسائل کی بچت جرم ہے تو سو بار کروں گا۔
واضح رہے کہ نیب لاہور نے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو آشیانہ ہاوسنگ اسکیم میں 19 کروڑ 30 لاکھ روپے کی کرپشن کے الزام میں تفتیش کے لیے طلب کیا تھا۔ نیب کے نوٹس میں کہا گیا کہ شہباز شریف نے پنجاب لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مستحق ٹھیکیدارچوہدری لطیف کا ٹھیکہ منسوخ کرکے لاہور کاسا کو ٹھیکے سے نوازا، جس سے خزانے کو 19 کروڑ 30 لاکھ روپے نقصان پہنچا۔ آشیانہ اقبال کا ٹھیکہ ایل ڈی اے کو دینے سے قومی خزانے کو 71 کروڑ 50 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کنسلٹنسی کی مد میں انجنیئرنگ سروس پنجاب کو 19 کروڑ 20لاکھ کی منظوری دی جبکہ نیسپاک نے کنسلٹنسی کا تخمینہ 3 کروڑ 50 لاکھ روپے لگایا تھا جس سے تقریبا 16 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔