تاریخ کبھی کبھی اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ حب الوطنی، قوم پرستی کی ضد ہے۔ پرانے خوانخوار دیو بیدار ہورہے ہیں اور وہ انتشار اور موت کے بیج بونے کےلیے بے قرار ہیں، دنیا میں قیام امن کےلیے زبانی دعوے کیے جاتے رہے ہیں لیکن ایک بار پھر دنیا آگ و خون کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔ آج سے 105 سال قبل ایک غریب گھرانے کا سرب نوجوان گاوریلو پرنکوپ جو اپنی محرومیوں سے ناآشنا تھا، لیکن اسے انتقام کا جام پلا کر تیار کیا گیاتھا۔ اس نوجوان نے آسٹرہینگرین تخت کے وارث آرک ڈیوک فرائز فرنینڈس پر گولی چلائی اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ گاور پرنکپ فرط مسرت سے اس خمار میں مبتلا تھا کہ اس نے لوگوں کے مسائل حل کردیے ہیں۔ وہ اس سے بے خبر تھا کہ جو گولی اس نے چلائی ہے، اس کا سفر 4 سال تک جاری رہے گا، وہ ایک گولی پورے یورپ کو خون میں نہلاتی رہے گی، اس کی بھینٹ مختلف ممالک کے تقریباً 90 لاکھ فوجی چڑھ جائیں گے اور 10 ملین شہری آبادی ملیامیٹ ہوجائی گی۔ جرمن اور فرانس شدید نقصان سے دو چار ہوں گے اور ان کی 80 فیصد مرد آبادی کو محاذ جنگ پر جانا پڑے گا، اور شہر کے شہر مردوں سے خالی ہوجائیں گےلاکھوں خواتین جو برسوں سے کام کرنے کا حق مانگ رہی تھیں، ان کو کارخانوں اور دفاتر کا چارج دے دیا جائے گا۔ یہ وہ ادارے تھے جن کے مکین محاذ جنگ سے کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔ یہ سب ایک گولی کا کرشمہ تھا جو سرب نوجوان نے اس لیے چلائی کہ وہ سمجھتا تھا کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا حساب بے باق کررہا ہے۔ کیا ناانصافیوں کا حساب آگ اور بارود سے برابر ہوتا ہے؟ آج سوسال بعد تباہ کن جنگ کا آغاز کرنے اور بڑھنے والوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں، پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر 11 نومبر 1918 بوقت دوپہر 11 بجے فریقین کے درمیان معاہدۂ امن اس دعوے کے ساتھ ہوا کہ آئندہ کوئی جنگ نہیں لڑی جائے گی۔ مگر صرف 21 سال بعد ہی پہلی جنگ عظیم سے کہیں زیادہ خوفناک اور بھیانک جنگ شروع ہوگئی، جسے ہم دوسری جنگ عظیم کہتے ہیں جو 1939 میں شروع ہوئی اور 1945 میں ختم ہوئی۔ لاکھوں فوجی اور سویلین مارے گئے، اس میں ایک طرف جرمنی کے مرد آہن ہٹلر تھے اور جاپان ان کا حلیف تھا۔ دوسری جانب پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والا تاج برطانیہ تھا، اور امریکا اس کا دست راست تھا، امریکا سمیت پوری یورپی ممالک ساتھ تھے۔ اس خونریز جنگ کے خاتمے سے قبل دنیا میں پہلی بار ایٹم بم کا استعمال ہوا اور امریکا نے جاپان کے شہر ’’ہیروشما‘‘ پر 6 اگست 1945 کو پہلا ایٹم بم گرایا، جس سے 20 ہزار فوجی اور ایک لاکھ 10 ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ پھر اس کے تین بعد ناگاساکی پر ایٹم بم پھینکا گیا جس میں 1 لاکھ 40 ہزار ہلاکتیں ہوئیں، اور لاکھوں لوگ شدید زخمی اور معذور ہوگئے۔ ان دونوں شہروں کئی سال گھاس تک نہیں اُگ سکی اور آبادی پر اس کے مضر اثرات کا شمار کرنا ممکن نہیں، دنیا کو عالمی مسائل سے نجات دلانے اور مختلف ممالک کے درمیان باہمی اختلافات کو ختم کرانے کےلیے 10جنوری 1920 کو قائم ہونے والی لیگ آف نیشن کی ناکامی پر 1945 میں اقوام متحدہ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس ادارے سے جو توقعات وابستہ کی گئیں وہ آج تک پوری نہیں ہوئیں اور ہمیشہ یہی دیکھنے میں آیا کہ یو این او کے فیصلے عالمی طاقتوں کے زیر اثر رہے۔