7 اپریل کو دارالحکومت میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ ایک امریکی سفارتکار ملٹری اتاشی کرنل جوزف کی گاڑی کی ٹکر سے موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں میں سے ایک عتیق جاں بحق اور دوسرا نوجوان زخمی ہو گیا۔
اس واقعہ کی فوٹیج سے واضح پتہ چلتا ہے کہ غلطی مکمل طور پر سفارتکار کی تھی جو سرخ اشارہ ہونے کے باوجود رکا نہیں اور اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بائیں جانب سے آنے والے موٹر سائیکل سواروں کو ٹکر ماردی جس سے ایک نوجوان جاںبر نہ ہو سکا۔ پولیس نے سفارتکار کو پولیس سٹیشن لے جا کر باضابطہ کارروائی کی اور سفارتی استثنیٰ حاصل ہونے کی بناء پر اسے واپس جانے دیا۔
دفتر خارجہ نے اس واقعہ کے بعد امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو دفتر خارجہ بلا کر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں سیکرٹری خارجہ تخمینہ جنجوعہ نے بیان دیا کہ ملزم کے خلاف ویانا کنوینشن کے تحت کارروائی ہو گی۔ اس واقعہ کے حوالے سے عوام الناس میں بھی غم و غصہ پایا جاتا ہے جو ایک فطری بات ہے۔
یہاں یہ سوال غور طلب ہے کہ کیا سفارتکار کو سزا ہو سکتی ہے؟ کیا کوئی میزبان ملک اپنے قانون کے مطابق کسی مہمان سفارتکار کو سزا دے سکتا ہے؟ ان سوالوں کا جواب 1961ء کے ویانا کنوینشن میں چھپا ہے۔
ویانا کنوینشن 1961ء میں منظور ہونے والا ایک بین الاقوامی قانون ہے جو ایک ملک کے سفارتکاروں کو میزبان ملک میں بلا خوف و خطر کام کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ اس وقت دنیا کے 191 ممالک اس قانون کو مانتے ہیں جو دوسرے لفظوں میں سفارتکاروں کو دوسرے ممالک میں ‘سفارتی استثنیٰ’ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان نے اس قانون پر 1962ء میں دستخط کئے تھے۔
ویانا کنوینشن کے تحت میزبان ملک مہمان ملک کے سفارتکاروں کو مکمل آزادی فراہم کرنے کا پابند ہے۔ اس قانون کا آرٹیکل 29 یہ کہتا ہے کہ سفارتکار کو میزبان ملک میں گرفتار یا نظربند نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی کسی سفارتکار کو میزبان ملک میں اس ملک کے قانون کے مطابق سزا نہیں دی جا سکتی۔ بے شک سفارتکار کسی کا قتل ہی کیوں نہ کر دے، اس پر میزبان ملک کے قوانین کا نفاذ عام شہریوں کی طرح نہیں ہوتا جو قابل غور ہے۔ کہنے کو تو یہ مضحکہ خیز لگتا ہے، لیکن عالمی قوانین یہی کہتا ہے جس کی پابندی پاکستان پر فرض ہے۔
بہرحال اگر مہمان ملک (جو اس کیس میں امریکہ ہے) اگر چاہے تو اسی قانون کے آرٹیکل 32 کے تحت کسی میزبان ملک میں (جو اس کیس میں پاکستان ہے) اپنے سفارتکاروں کو فراہم کردہ سفارتی استثنیٰ ختم کر سکتا ہے۔ یعنی کسی سفارتکار کو میزبان ملک میں سزا دینے یا نہ دینے کا اختیار مکمل طور پر مہمان ملک کے پاس ہوتا ہے جو اسے ویانا کنوینشن فراہم کرتا ہے۔ اس سے ایک چیز تو واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان اپنے قوانین کے تحت اس سفارتکار کو سزا دینے کا اختیار تب تک نہیں رکھتا جب تک امریکہ اسے یہ حق فراہم نہ کر دے۔
مثال کے طور پر 3 جنوری 1997ء کو جارجیا کے امریکہ میں تعینات ڈپٹی کمشنر نے واشنگٹن میں گاڑی چلاتے ہوئے 4 لوگوں کو زخمی اور ایک 16 سالہ لڑکی کو کچل ڈالا تھا۔ سفارتی استثنیٰ حاصل ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا گیا لیکن بعد میں جارجیا سے امریکی حکومت نے درخواست کی کہ سفارتکار کو حاصل استثنیٰ ختم کریں تاکہ اس کے خلاف امریکی قوانین کے تحت کارروائی کی جائے۔ جارجیا نے یہ درخواست منظور کرلی جس وجہ سے تعینات ڈپٹی کمشنر کو امریکی قوانین کے تحت 7 سے 21 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ 3 سال امریکی جیل میں قید رہنے کے بعد امریکہ نے سفارتکار کو اس شرط پر جارجیا واپس جانے دیا کہ یہ باقی ماندہ سزا اپنے آبائی وطن میں پوری کرے۔ 2007ء میں اس سفارتکار نے جیل سے رہائی پائی۔
سزا کی ایک اور صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مہمان ملک اپنے سفارتکار کو واپس وطن بلا کے اپنے قوانین کے تحت اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائے اور جو سزا بنتی ہے، وہ اسے دے۔ جو اس کیس میں امریکہ بہادر کے لئے ایک مشکل بات لگتی ہے۔
ماضی میں بھی اس قسم کے واقعات دارالحکومت اسلام آباد میں پیش آ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر جولائی 2010ء میں امریکی ایمبیسی کے فورس پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک سفارتکار نے سیونتھ ایونیو پر ایک موٹر سائیکل سوار کو ٹکر ماری جس سے وہ نوجوان موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ سفارتی استثنیٰ حاصل ہونے کی وجہ سے اس سفارتکار کو چھوڑ دیا گیا۔ فروری 2013ء میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جس میں ایک موٹر سائیکل سوار ہلاک ہوا لیکن سفارتکاروں کے خلاف ویانا کنوینشن کے تحت کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ یہ قابل غور ہے کہ ان دونوں واقعات میں موٹر سائیکل سواروں کو مارنے والے سفارتکاروں کے خلاف امریکہ نے بھی کوئی کارروائی نہ کی اور انہیں محض طلب کر کے اور پوچھ گچھ کر کے چھوڑ دیا گیا۔
لہٰذا موجودہ بین الاقوامی قوانین اور ماضی کے واقعات کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سفارتکار کو حاصل استثنیٰ کی وجہ سے اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی۔