ایم کیو ایم پاکستان ایک اندرونی خلفشار سے گزر رہی ہے جبکہ اندر سے آنے والی خبروں کے مطابق مزید بحران ٹل چکا ہے۔ اس بات کا بھی انتظار کرنا چاہیے کہ کب رابطہ کمیٹی سرجوڑ کر بیٹھے گی اور پارٹی کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر فاروق ستار کی طرف سے پارٹی آئین میں کی گئی تبدیلیوں کو واپس بحال کر ے گی۔
پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ سے متعلق ایک چیز حالیہ دنوں میں اس وقت دیکھنے میں آئی جب متحدہ کے بانی رکن سلیم شہزاد نے نئی پارٹی کی بنیاد رکھنے کا اعلان کر دیا اور 16دسمبر کو اورنگی ٹائون میں جلسے کرکے طاقت کے اظہار کا ارادہ ظاہر کرچکے ہیں۔ یہ فیصلہ انہیں ایم کیو ایم پاکستان یا پاک سرزمین پارٹی میں ایڈجسٹ نہ ہوسکنے کی وجہ سے کرنا پڑا۔ کیا پہلے سے تقسیم شدہ متحدہ کو مزید تقسیم کرنے کی طرف یہ ایک اور قدم ہوگا؟ یہ خبریں بھی سرگرم ہیں کہ پرانی مہاجر رابطہ کونسل جس نے 1992ء اور 1995ء کے مشکل اوقات میں ایم کیو ایم اور اس کے بانی کو سپورٹ کیا تھا، وہ بھی الیکشن سے قبل متحرک نظر آئے گی۔
ایم کیو ایم پاکستان جو کہ 8دسمبر کو حیدرآباد میں عوامی طاقت کے مظاہرے کا ارادہ رکھتی ہے، اندرونی طور پر بالکل مختلف قسم کے خلفشار سے نبرد آزما ہے۔ جس میں سب سے اہم مدعا تو یہ ہے کہ پارٹی رہنمائوں کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ فاروق ستار کچھ ’’نامعلوم افراد‘‘ کی رضامندی سے پارٹی آئین میں سخت قسم کی تبدیلیاں کر چکے ہیں۔ رابطہ کمیٹی نے مذکورہ تبدیلیوں کو ختم کرنے کامطالبہ کیا ہے اور خبریں ہیں کہ فاروق ستار نے بھی 23اگست2016ء کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کروائے گئے پارٹی آئین کو اصل شکل میں بحال کرنے اور مذکورہ تبدیلیوں کو دورکرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ رابطہ کمیٹی کی گرفت کم کرنے کیلئے بھی ایک تجویز زیر غور ہے۔
متحدہ پاکستان کے بعض سینئررہنمائوں سے بات چیت سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق فاروق ستار بھی اسٹیبلشمنٹ کے کچھ کرتا دھرتائوں کی طرف سے شدید دبائو میں ہیں ،اسی وجہ سے وہ رابطہ کمیٹی کو اعتماد میں نہیں لے پائے۔ خاص طور پر آئین میں تبدیلیوں اور پارٹی چیئرمین کو مضبوط کرنے کے حوالے سے رابطہ کمیٹی کی منظوری نہیں لی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بہت سے رہنما فاروق ستار پر دبائو سے واقف ہیں جو کہ 22اگست 2016ء کے بعد سے جاری ہے۔ انہیں ہی جماعت کا سب سے قابل قبول رہنما بھی قرار دیتے ہیں۔ انہی رہنمائوں نے فاروق ستار سے آئین میں تبدیلیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک سینئر لیڈر نے بتایا’’ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے سب اپنی مرضی سے نہیں کیا،تاہم جس چیز نے ہمیں حیرت زدہ کیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خیرخواہوں کو بھی پی ایس پی کے ساتھ ادغام کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا بلکہ ہمارے سامنے یہ انکشاف ایک تیسری پارٹی نے کیا‘‘۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔ تاہم پی ایس پی لیڈران مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران شدید تنائو اُن کے چہرے سے عیاں تھا۔ کوئی چیز شائد انہیں پتا چلی ہو اور دوسری پریس کانفرنس میں انہوں نے اتحاد ختم کرنے کا اعلان کر دیاجس کے بعد طرفین نے ایک دوسرے پر دھوکہ بازی کا الزام لگایا جس کے بعد پہلی مرتبہ ’’تیسرے ہاتھ ‘‘ کا کردار واضح طور پر سامنے آگیا اور انہیں پشیمانی اٹھانی پڑی۔
پارٹی رہنمائوں نے فاروق ستار کو کہا ہے کہ وہ آئین میں تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لئے رابطہ کمیٹی کا اجلاس منعقد کریں۔ کیونکہ رابطہ کمیٹی نے ہی انہیں پارٹی چیئرمین مقرر کیا ہے۔
باخبر رہنمائوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کو اس بات کا خوف ہے کہ رابطہ کمیٹی ناصرف آئینی تبدیلیوں کو ختم کر سکتی ہے بلکہ ڈپٹی کنوینر کامران ٹیسوری کے خلاف بھی ایکشن لے سکتی ہے جن کے بارے میں بہت سے ارکان کا خیال ہے کہ اس سارے منظر نامے کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے۔
پی ایس پی کے ایک مرکزی رہنما نے بتایا ’’ہم فاروق بھائی کی سیاسی اہمیت سے آگاہ ہیں اگر وہ ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہئیں تو یہ ہمارے لئے ایم کیو ایم کی اہم ترین وکٹ ہو گی‘‘۔
گزشتہ چھ آٹھ ماہ کے دوران اسٹیبلشمنٹ، فاروق ستار اور پی ایس پی کے مابین جو کھچڑی پکتی رہی اس نے پہلے ہی بہت سے سوالات اٹھا دیئے ہیں ۔ بعض ذرائع نے بتایا ہے کہ ایک موقع پر تو فاروق ستار دبائو میں آ کر ایم کیو ایم کو ختم کرنے، پارٹی چھوڑنے یا خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے کا سوچ چکے تھے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ معاملات میں ملوث ’’ایمپائر‘‘ نے انہیں اور پی ایس پی والوں کو کوئی قابل قبول فارمولا طے کرنے کا کہا ہے۔ اس عمل نے پی ٹی آئی رہنما فیصل واڈا اور ایم کیو ایم رہنما کامران ٹیسوری کے کردار کو بے نقاب کر دیا ہے۔
بعد ازاں ایم کیو ایم کی طرف سے فیصل سبزواری اور خواجہ اظہار الحسن نے کچھ میٹنگوں میں شمولیت کی ،دیگر سینئر لیڈر بھی شامل تھے جبکہ پی ایس پی کی طرف سے مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی پورے مینڈیٹ کے ساتھ شریک ہوتے رہے۔
رابطہ کمیٹی کے اکثرارکان پارٹی کا نام، جھنڈا اور انتخابی نشان ختم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ تاہم فاروق ستار بہت دبائو میں تھے اور ان کا نروس بریک ڈائون ہوتے ہوتے بچا۔
ایم کیو ایم پاکستان پرصرف پی ایس پی کے ساتھ ادغام یا متحدہ لندن کو سیاسی منظرنامے سے باہر کرنے سے متعلق ہی دبائو نہیں تھا حتیٰ کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دینے پر بھی کچھ حلقوں نے اعتراض کیا۔
فیصل سبزواری اور خواجہ اظہار الحسن کو اس وقت اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ ہوا جب مذاکرات کے دوران تھرڈ پارٹی کے نمائندے نے یہ کہتے ہوئے بم پھوڑا کہ فیصلے کا سارا اختیار چیئرمین کے پاس ہے اسی میٹنگ میں انہیں پتا چلاکہ پارٹی آئین میں ان کی مرضی کے خلاف تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
جب انہوں نے فاروق ستار سے اس بابت پوچھا تو انکے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا اور وہ خاموش ہو گئے۔ تاہم خواجہ اظہار اور فیصل سبزواری نے کہا کہ ادغام کی بجائے انہیں سیاسی اتحاد کرنا چاہیے۔
مصطفیٰ کمال اور انیس قائمخانی نے ایم کیو ایم کے رہنمائوں کو بتایا کہ وہ اپنی جماعت کے نام سے دستبرد ار ی کیلئے تیار ہیں تاہم ایم کیوایم کو بھی کسی تیسرے نام جیسا کہ ’’پاکستان قومی موومنٹ‘‘پر متفق ہونا ہو گا۔ یہی نام پی ایس پی اپنے قیام کے وقت اپنانا چاہتی تھی۔
اب اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں جماعتوں کی پریس کانفرنس سکرپٹڈ تھی لیکن دونوں نے ہی ایک دوسرے کو سکرپٹ سے باہر جانے پر مورد الزام ٹھہرایا۔ پاکستان کی تاریخ اور خصوصاً شہری سندھ کی سیاسی تاریخ میں یہ ایک تاریک باب ہے۔ حالانکہ ماضی میں بھی ایسی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
1992ءمیں اورپھر1993ُءمیں ایم کیو ایم (ایچ) یا پھر عظیم طارق سے متعلق فیصلے ہوں یہ سب اقدامات متوقع نتائج دینے میں ناکام رہے۔ بانی متحدہ کی یکے بعد دیگرے حماقتوں نے پارٹی میں توڑ پھوڑ اور 2013ء کے انتخابات کے بعد زوال میں اہم کردار ادا کیا۔
تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتی ایم کیو ایم کو ایک اور خلفشار کا سامنا ہے اور ایسے میں فاروق ستار کی قیادت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
موجودہ سیاسی منظر نامے میں متحدہ کے لیے چیزیں بدستور تاریک ہیں اور اگر اس نے ان پر قابو نہ پایا اور نوشتہ دیوار نہ پڑھا تو پارٹی یا تحریک جو کہ ’’ایم کیو ایم‘‘ کہلاتی ہے کا اختتام ہو سکتا ہے۔
پارٹی کیلئے یہ کرو یا مرو کی حالت ہے۔ کچھ ارکان کا خیال ہے کہ لیاقت آباد جلسہ نے انہیں امید دلائی ہے اور حیدر آباد جلسہ سے مزید بہتری کی امید ہے اس سے پتا چلے گا کہ لوگ ان پر اعتماد رکھتے ہیں یا خیر باد کہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔