ایم ایم اے کے خدوخال کافی حد تک واضح ہو چکے ہیں۔ انتخابی نشان سے اتحاد کی سربراہی تک جمیت علمائے اسلام اس اتحاد پر اس طرح سے حاوی دکھائی دیتی ہے کہ جیسے ایم ایم اے کی تشکیل نہیں ہوئی بلکہ جماعت اسلامی نے اپنے آپ کو جمعیت علمائےاسلام میں ضم کر دیا ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایم ایم اے پاکستان کی سیاست پر کوئی قابل قدر نتائج اخذ کر سکتی ہے؟ کیا ہمیں کسی اپ سیٹ کی توقع رکھنی چاہئیے؟
اس کا تجزیہ کرنے کے لیے ہمیں کے پی کے پچھلے نتائج اور الیکشن سے لے کر اب تک کی ہونے والی سیاسی ڈویلپمنٹ پر غور کرنا پڑے گا۔
پچھلے الیکشن میں جمعیت اور جماعت کے علاوہ ان تمام مذہبی جماعتوں نے حصہ نہیں لیا تھا جو اب ایم ایم اے کا حصہ بن رہی ہیں۔ ان مذہبی جماعتوں کا ووٹ بنک جمعیت اور جماعت کے ہی کھاتے میں گیا تھا۔ دوسری طرف بہت سے ایسے آزاد امیدوار بھی سامنے آئے تھے جو جیت تو نہ سکے مگر انہوں نے کافی زیادہ ووٹ لیے۔
الیکشن کے بعد تین بڑے کام ہوئے۔
پہلا ایم ایم اے کا بننا۔
دوسرا اے این پی، پی پی، جماعت اور جمعیت سمیت بہت سے آزاد امیدواروں کا ان حلقوں میں تحریک انصاف جوائن کرنا جہاں پہلے تحریک انصاف نہیں جیت سکی تھی۔
تیسرا تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ کی شکل میں ایک متبادل اور زیادہ متحرک جماعت کا وجود میں آنا۔ اس جماعت نے این اے 4 اور این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں جماعت اسلامی کو شدید نقصان پہنچایا۔
اگر ہم جماعت اور جمعیت کے پچھلے الیکشن میں پڑنے والے ووٹ جمع کر لیں تو کے پی اور فاٹا کی قومی اسمبلی کی چھے نشستیں ایسی سامنے آتی ہیں جن میں ابھی تو کوئی اور جماعت فاتح ہے مگر اتحاد کی صورت میں وہاں ایم ایم اے اس بار بازی مار سکتی ہے۔ ان میں سے این اے 10 اور این اے 11 (مردان) پر پی ٹی آئی، این اے 8 (چارسدہ) پر قومی وطن پارٹی، این اے 32 (چترال) پر مشرف کی جماعت، این اے 36 (فاٹا) پر آزاد جبکہ این اے 44 (فاٹا) پر مسلم لیگ ن کے امیدوار موجودہ ایم این اے ہیں۔
دوسری طرف اس اتحاد اور مختلف امیدواران کی تحریک انصاف میں شمولیت سے چھہ ایسے حلقے ہیں جہاں پہلے تحریک انصاف کو شکست ہوئی مگر اب وہاں تحریک انصاف کی پوزیشن ایم ایم اے اور دوسری جماعتوں سے بہتر ہے۔ ان میں این اے 20 (مانسہرہ)، این اے 28 (بونیر) ،فاٹا کے چار حلقے این اے 39، این اے 42، این اے 45 اور این اے 46 شامل ہیں۔
اس ساری بحث کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی سے تحریک انصاف کی دو نشستیں خطرے میں تو ہیں مگر تحریک انصاف اس کے نتیجے میں چھے دوسری نشستیں جیت سکتی ہے یعنی کہ حتمی تجزیے میں یوں کہہ لیجئیے کہ ایم ایم اے اور تحریک انصاف دونوں ہی اس بار چار چار مزید نشستیں جیتیں گی جبکہ ن لیگ کی چار نشستیں شدید خطرے میں ہیں۔
لیکن ایک نقطہ جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ پچھلے الیکشن میں سپہ صحابہ، جماعت دعوہ اور دوسری بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے جمعیت اور جماعت کو ووٹ دیا تھا جبکہ اس بار وہ خود الیکشن میں اترنے لگی ہیں اور یہ ایم ایم اے کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے اور اس کی ایک مثال ابھی این اے 4 کا ضمنی الیکشن ہے جہاں جماعت کا ووٹ سولہ ہزار سے کم ہو کر چھے ہزار پر آ گیا تھا کیونکہ تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ نے آٹھ ہزار ووٹ لیے۔ اگر یہی ٹرینڈ اگلے الیکشن میں بھی جاری رہا تو پھر ایم ایم اے شاید موجودہ نشستیں بھی حاصل نہ کر پائے