تحریر :۔انجم صحرائی
جن دنوں میں اسلامی جمیعت الطلبہ کے رفیق کی حیثیت سے متحرک ہوا ان دنوں مہر الہی بخش کلا سرہ جمیعت کے ناظم ہوا کرتے تھے میاں محمد بشیر بھٹے والے نئے نئے جماعت اسلا می میں شا مل ہو ئے تھے اور انہیں کسان بورڈ میں ذمہ داریاں سو نپی گئی تھیں مجھے یاد ہے کہ میاں صاحب نے کسان بورڈ کی تنظیم سازی میں شب و روز محنت کی اور لیہ تحصیل کے ہر قصبے اور گا ئوں میں کسان بورڈ کے یو نٹ قائم کئے ۔مجھے یاد ہے کہاسلا می جمیعت کے اکثر تنظیمی اجلاس بھی میاں بشیر کے گھر ہی ہوا کرتے تھے میاں تنویر اس زما نے میں اسلا می جمیعت کے انتہا ئی متحرک اور فعال سا تھیوں میں سے تھے۔
ان کے علا وہ نسیم کا کا ، محمد رمضان جانی اور محمد اسلم رند بھی اسلا می جمیعت کے ذمہ داروں میں سے ہوا کرتے تھے ۔ منور حسین چو ہدری بھی اسی زما نے میں جمیعت کے ناظم رہے تھے ۔پی ایس ایف ( پیپلز سٹو ڈنٹس فیڈ ریشن )بھی اس زما نے میں لیہ کی ایک فعال طلبا تنظیم تھی مجھے یاد ہے کہ عادل شاہ کے چھوٹے بھا ئی منور پی ایس ایف کے عہدیدار وں میں سے تھے انہی دنوں جب قو می انتخابات ہو ئے تب جمیعت العلماء پاکستان کے پیر بارو ، پی پی پی کے مہر منظور حسین سمرا اور جماعت اسلامی کے مو لانا افضل بدر میں مقا بل تھا ۔ گورٹمنٹ ہا ئی سکول کوٹ سلطان کے پو لنگ سٹیشن پر جماعت اسلامی کے امیدوار کی طرف سے میرے علا وہ مظفر گڑھ سے آ ئے ہو ئے اسلا می جمیعت کے سا تھی خان بھی پو لنگ ایجنٹ تھا ہمارے پو لنگ سٹیشن پر پیر بارو جیت گئے تھے اور مو لا نا افضل بدر کو شا ئد اٹھا ئیس ووٹ ملے تھے
لیکن مجموعی طور پر پی پی پی کے مہر منظور حسین سمرا کا میاب رہے تھے ان دنوں گورٹمنٹ ہا ئی سکول کوٹ سلطان میں اسلا می جمیعت کی سر گر میاں بہت عروج پر تھیں یہاں تک کہ اس ز ما نے میں ہم نے سکول یو نین کے با ضابطہ الیکشن کرائے جس میں ہمارے گروپ کے امیدوار سخاوت علی شاہ کا میاب ہو ئے یہ سخاوت علی شاہ آج کے ڈاکٹر سخاوت ہیں جن کے ایک بھا ئی سید شو کت علی ایس پی بھی رہے ۔دھرم شال پرائمری سکول کوٹ سلطان میں میں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی میرے اسا تذہ میں غلام حسن منجو ٹھہ ، اللہ بخش اور ذو الفقار شاہ بخاری کی محبتوں اور شفقتوں نے مجھے آج بھی اسیر کیا ہوا ہے ہا ئی سکول میں میرے اسا تذہ میں غلام حسین منجوٹھہ ،جام غلام حسین ،ما سٹر گل محمد کھرل ،رشید احمد او ٹی۔
نثار احمد ، محمد عا شق ،محمد رفیق ، عربی ما سٹر خور شید شاہ مجھے یاد ہیں ان دنوں ایک ڈرائینگ ما سٹر حفیظ اور سا ئئنس کے استاد غالبا گشگوری صاحب ( مجھے ان کا نام یاد نہیں آ رہا ) اور غلام حسن دستی ہوا کرتے تھے ہا ئی سکول کوٹ سلطان کے ہیڈ ما سٹر الما نی صاحب تھے جب میری پہلی پیشی ہیڈ ما سٹر کے دفتر میں پڑی ہوا یوں کہ ان دنوں اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی کتاب ” Friends, not Masrter “کے اردو تر جمہ” جس رزق سے آ تی ہو پرواز میں کو تا ہی “کا روزانہ اخبارات میں ذکر آتا تھا ۔ یہاں میں بتا تا چلوں کہ اس زما نے میں بھی میراایک ہی مشغلہ تھا اخبا ر بینی اور کوٹ سلطان کے بازار میں دو مقامات ایسے تھے جہاں شا ئقین اخبار اپنا یہ شوق پو راکر سکتے تھے
ایک ڈاکٹر یا مین کا کلینک اور دوسرا ملک عزیز منجوٹھہ کے والد مر حوم ملک ثنا ء للہ کی کتا بوں کی دکان ، مرحوم حافظ ریاض نیوز ایجنٹ ہوا کرتے تھے اور کٹر پی پی پی کے جیا لے تھے اللہ بخشے بڑے وضعدار اور خو بصورت محنتی انسان تھے خیر ذکر ہو رہا تھا ایوب خان کی کتاب کا ۔ ہم نے اخبار میں اس کتاب بارے پڑھا اور ایک پو سٹ کارڈ تحریر کر دیا صدر پا کستان کو کہ ہم آپ کی کتاب پڑھنا چا ہتے ہیں ہمیں یہ کتاب بھیج دیں چو نکہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ کتاب خرید سکیں کئی دن گذر گئے اور ہم یہ کاروائی شا ئد بھول چکے تھے کہ ایک دن جب ہم عربی کے پیر ئیڈ میں گپیں مار رہے تھے کہ سکول کا ما لی جسے ہم سب چا چا کہتے تھے
کلاس روم میں داخل ہوا اور میرا نام پکارا ۔ میں نے ہا تھ کھڑا کر دیا اس نے مجھے کہا کہ آ ئو تمہیں ہیڈ ما سٹڑ صاحب بلا رہے ہیں میں اس کے سا تھ ہو لیا ۔ الما نی صاحب جن کا میں پو را نام یاد نہیں آ رہا بڑے سمارٹ لمبے قد کے انسان تھے دھیمے لہجے میں بو لتے مگر ان کا انداز اور آواز بڑی پر اثر ہو تی میں ان کے آ فس میں دا خل ہوا تو وہاں کئی اور ٹیچر بھی مو جود تھے مجھے دیکھتے ہی بو لے تم نے صدر کو کیا خط لکھا تھا میری حالت ایسی تھی جیسے کسی مجرم کی ہو تی ہے
میں نے سر جھکا ئے جواب دیا جی ۔ کیوں لکھا ؟ وہ بو لے ان کی آواز سن کر مجھے لگا کہ ابھی مجھے ایک تھپڑ بھی پڑے گا مگرجب کچھ نہ ہوا تو میں نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہا کہ میں نے ان کی کتاب منگوائی تھی انہوں نے پو چھا کون سی کتاب میں نے کہا کہ ” جس رزق سے آ تی ہو پرواز میں کو تا ہی ” میر ا یہ جواب سن کر ہیڈ ما سٹر صاحب نے اپنی ٹیبل پر پڑی ایک مو ٹی سی کتاب اٹھا ئی اور بو لے یہ لو آ گئی ہے اسے پڑ ھو دو ہفتے کے بعد میں تمہا را امتحان لوں گا کہ تم نے اس میں کیا پڑھا ۔میں کتاب لے کر واپسی کے لئے مڑا ہی تھا کہ الما نی صاحب بو لے سنو ! آ ئندہ ایسی حرکت نہ کر نا جی یہ کہتے ہو ئے میں کمرے سے نکل آ یا۔
صدر محمد ایوب خان کی طرف سے اس کتاب کے تحفے نے مجھے زیادہ معتبر اور با اعتماد بنا دیا تھا ۔پھر جب ہم نے سکول میں جمعت کی سر گر میاں شروع کیں اس وقت ہما رے ہیڈ ما سٹر مظفر گڑھ کے نصر اللہ خان شیروانی تھے ان کی ہمدردیاں پی پی پی کے ساتھ تھیں پی پی پی کوٹ سلطان کے صدر ڈاکٹر خلیل چو ہدری ان کے دوست تھے ہم نے سکول میں بہت زیادہ سیا سی دھما کہ چو کڑی مچا ئی ہو ئی تھی اور وہ ہم سے بہت تنگ تھے ایک دن نہ جا نے کیا ہوا کہ انہوں نے ہمیں اپنے دفتر کے باہر ٹہلتے دیکھ لیا ہمیں بلا یا اور پو چھا کہ کیا کر رہے ہو میں نے کہا کہ جی۔۔ ابھی میرا جواب مکمل نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے اپنے ہا تھ میں پکڑی چھڑی سے ہمیں مارنا شروع کر دیا وہ ہا تھ نکا لو کہتے جاتے اور مارتے جا تے انہوں نے ہمیں کتنا مارا اس کا اندازہ تو نہیں کیا جا سکتا مگر اتنا مارا کہ کہ ان کی چھڑی ٹوٹ گئی لیکن انہوں نے مشق ستم جاری رکھی اور وہ ٹو ٹی ہو ئی چھڑی سے بھی ہمیں ما رتے ر ہے
ٹوٹی ہو ئی چھڑی کی نوک نے ان کے ہا تھ کو زخمی کر دیا تھا جس کی وجہ سے ان کے ہا تھ سے خون رسنے لگا تھا سارا سکول ہماری درگت بنتے دیکھ رہا تھا جب یہ تما شہ ختم ہوا خان صاحب ہانپ رہے تھے اور میری ایک انگلی میں فریکچر ہو چکاتھا اور دونوں ہا تھ سو جے سو جے سر خ ہو ئے ہو ئے تھے میری جان چھٹی تو میں اپنی کلاس میں آ کے بیٹھ گیا کچھ ہی دیر بعد ہیڈ ما سٹر صاحب ہماری کلاس میں آ گئے اور ایک بار مجھے پھر اپنے پاس بلا یا اور کہنے لگے کیا تم نے آج کے واقعہ کی خبر کسی کو دی ہے میں نے ڈرتے ہو ئے جواب دیا نہیں کہنے لگے شا باش آ ئو میرے سا تھ چلو چلتے ہو ئے بو لے استاد شا گرد کا رشتہ اولاد اور باپ کا ہو تا ہے میں نے جو بھی کیا ہے
تمہا رے بھلے میں کیا ہے پھر بھی میں تم سے معذرت کر تا ہوں میں بڑا حیران کہ ہیڈ ما سٹر صاحب کو یہ کیا ہو گیا ہے کہ وہ مجھ سے معا فی ما نگ رہے ہیں ایسا سکول میں پہلی بار تو نہیں ہوا ایسے واقعات تو آ ئے روز ہو تے رہتے ہیں سکول میں ۔ خیر جب ہم دفتر میں پہنچے تو ان کی معذرت کا عقدہ کھلا ۔ ان کے دفتر میں مو لا نا افضل بدر اور جمعت کے کچھ دوست مو جود تھے ہوا یوں تھا کہ جس دن ہماری درگت بنی اسی دن لیہ میں اسلا می جمیعت کا کو ئی پرو گرام تھا مو لا نا افضل بدر اور مظفر گڑھ سے اسلا می جمیعت کے سا تھی اس پرو گرام میں شر کت کے لئے لیہ آ ئے ہو ئے تھے
بدر صاحب سر کاری تعلیمی اداروں میں سٹیشنری فراہمی کا کاروبار بھی کرتے تھے وا پسی پر انہوں نے سو چا کیوں نہ کوٹ سلطان ہا ئی سکول کے ہیڈ ما سٹر سے بھی کا رو باری ملا قات کر لی جا ئے سو وہ لوگ آ گئے۔ ان کی آ مد سے شیر وانی صاحب خا صے پریشان ہو گئے انہوں نے سمجھا کہ ان سب لو گوں کو میں نے صبح کے ہو نے والے ظلم کی اطلاع دے کر بلا یا ہے اسی لئے وہ میرے کلاس روم میں آ ئے اور مجھے سمجھا بجھا کے اپنے دفتر لے گئے جہاں میں نے بھی وہ چا ئے پی اور سو ہن حلوہ کھا یا جو مہما نوں کے لئے تھا میرے لئے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی ملنے والے اس اعزاز نے مجھے چند گھنٹے پہلے خود پر ہو نے والے سبھی جوروستم بھلا دئیے کیا معصو میت تھی اور کیا معصوم زما نہ تھا۔
اماں کی وفات کے بعد خا صی بے کار وقت گذاری کے بعد میں کچھ عر صہ جماعت کے دفتر سے بھی وابستہ رہا ۔ اس زما نے میں جماعت اسلامی لیہ کا دفتر سا بقہ نیشنل بنک کی عمارت کے سا منے کریانہ دکان کے اوپر ایک چو بارہ میں ہوا کرتا تھا اس زما نے میں راجہ عبد اللہ ناظم دفتر ہوا کرتے تھے ۔ للی لال روڈ پر ایک جماعت کے سا تھی محمد بخش نتکا نی کا ہوٹل ہوا کرتا تھا مجھے یاد ہے جب بھی ہمارے پاس پیسے نہ ہوتے یہ ہوٹل ہمارا بہی خواہ ہوتا اور ہم قیا مت کی ادھار پر یہاں کھا نا کھا لیتے مہر عبد اللہ لو ہانچ کی جماعت سے عملی طور پر علیحدگی کے بعد ملک غلام محمد اعوان امیر جما عت بن چکے تھے۔
انہوں نے مجھے کہا کہ میں کوٹ سلطان میں جماعت کا دفتر قا ئم کروں ۔ ان کی ہدا یت پر میں نے ملک عبد الرشید منجوٹھہ کے سا تھ مل کر کو ٹ سلطان اڈے پر ایک دکان کرا یے پر لے کر جماعت اسلا می کا جھنڈا لگا دیا ۔یہ دکان کوٹ سلطان کی ایک معروف سیاسی اور سما جی شخصیت ڈاکٹر شا ہنواز سر گا نی کی تھی ۔ یوں تو ڈاکٹر صاحب کا تعلق جمیعت اعلماء اسلام (مفتی محمود گروپ ) سے تھا مگر وہ میرے محسنوں اور مہر بان سا تھیوں میں سے تھے کوٹ سلطان میں مجھے ہمیشہ مرحوم کا تعاون حا صل رہا ۔داکٹر شا ہنواز کی انفرادیت یہ تھی کہ کہ وہ ہمیشہ فیوڈل کے خلاف عام آ دمی کی بات کرتے تھے
ظالم جا گیردار اور کرپٹ پو لیس ان کے پسندیدہ مو ضوعات تھے سفید پوش شخصیت تھے مگر لوگ بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے انہوں نے جب بھی بلد یا تی الیکشن لڑا کا میا بی حا صل کی حا لا نکہ مقا می اشرا فیہ ہمیشہ ان کی مخا لف ہو تی تھی ۔ یہ 1972 کی بات ہے جب امیر جما عت اسلامی پا کستان میاں محمد طفیل لیہ کے دورے پر آئے تو ہم نے پروگرام بنا یا کہ کوٹ سلطان اڈے والی مسجد میں میاں صاحب کا مختصر خطاب کرایا جا ئے ۔ ہم سا تھیوں نے پوری رات گھر میں بیٹھ کر ہا تھوں سے خو ش آ مدیدی چارٹ تیا ر کئے ۔ جھنڈے بھی بنا ئے گئے اور کپڑے کا بینر بھی لکھوایا ۔ڈاکٹر مر حوم ساری رات ہمارے سا تھ رہے یہاں یہ بات قا بل ذکر ہے
مقا می پو لیس کو بھی اس پرو گرام کی بھنک مل گئی تھی پو لیس ہمیں تلا ش کر تی مگر ہم نے ہا تھ نہ دیا صبح دس بجے کے بعد میاں طفیل صاحب کا قا فلہ کوٹ ادو سے لیہ جا تے ہو ئے کوٹ سلطان پہنچا کا ر کنوں کی ایک بڑی تعداد میاں محمد طفیل کے استقبال کے لئے مو جود تھی طے شدہ پرو گرام کے مطا بق تو ہم کارکن جلوس کو اڈے والی مسجد میں لے گئے مسجد کے اندر لا ئوڈ سپیکر والے کمرے میں تالا لگا ہوا تھا مسجد کے متعلقہ سا تھی سے چا بی بارے دریا فت کیا تو پتہ چلا کہ تا لے کی چا بی تو آج صبح ہی خان صاحب نے لے لی تھی اور انہوں نے منع بھی کیاہے کہ یہاں مسجد میں کو ئی جلسہ نہیں ہو نا چا ہیئے یہ سن کر ہم بڑے پریشان ہو ئے لیکن جلوس میں شریک کوٹ ادو کے ایک سا تھی قا ضی عبد الواحد نے ہمارے ایک سا تھی منظور مجاہد سے کہا کہ وہ تا لا توڑ دے۔۔
تحریر : انجم صحرائی