تحریر : شاہ بانو میر
موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ، کل ہماری باری ہے جمعۃ المبارک کا دن ہے اور میرے وطن پر ایک بار پھر قیامت اس وقت ٹوٹی جب دشمنانَ پاکستان نے ایف سی کے جوانوں کی وردیوں کو ملبوس تن کئے ہوٰئے پشاور میں پاک فضاٰیہ کے مرکز پر دہشت گرد کارواٰئی کی’ پو پھٹنے سے پہلے اندھیرے میں دو اطراف سے یہ لوگ داخل ہوٰے جنہیں ایکٹو رسپانس کے دستے نے روکا ‘کٰی گھنٹوں پر مشتمل یہ لڑاٰی بلآخر اپنے انجام کو پہنچی اور 13 دہشت گردوں کو خاک چٹا کر جہنم واصل کیا دوسری طرف 3 جوان جامَ شہادت نوش کر گٰئے کیپٹن اسفند یار بخاری وہ ہیرو جنہوں نے اس دستے کی کمانڈ کی اور بے جگری سے کٰی گھنٹے تک ان دہشتگردوں کو پاک فضاٰئیہ کے قیمتئ اثاثوں تک جانے سے روکا اور دہشت گردوں کواپنی کامیاب حکمتَ عملی کا مظاہرہ کرتے ہوٰے پیچھے دھکیلتے ہوٰئے گارڈ روم تک محصور کر دیا’ اور جارحیت کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور پاکستان کی سالمیت کو ایک بارپھربڑے نقصان سے بچا لیا’ کیا جوش کیا غضب ہوتا ہے
کسی مردَ مجاہد کے دل و دماغ میں غیرت مند جزبہ جو سوچتا ہے کہ اپنی جان دے کر اس ملک کی زمین کو مادرَ وطن کو اور اپنی بہنوں کو ان ناپاک ہاتھوں سے محفوظ رکھنا ہے’ پاکستان کی اسٹرٹیجک اثاثوں کو ہر قیمت پر بچانا ہے اور دشمن کو خاک و خون میں لوٹ پوٹ کر کے اس کے بڑوں کو پیغام دینا ہے کہ ابھی اس کے بہادر بیٹے اس کے دفاع کیلیے موجود ہیں ‘ یہ وہ جانباز جو جان دے کر غیرت کا ملک سے قوم سے محبت کا دعویٍ سچ ثابت کر جاتے ‘ بغیر اس شکوہ کے کہ ابھی تو ہمارے ہنسنے کھیلنے کے دن ہیں ایک طرف سیاستدان جو منتظر رہتے کہ کاش کوٰئی معاملہ ملے اور وہ کسی کے سر پر ہاتھ رکھ کر ہیرو بن سکیں ‘ آٹے کی بوریاں بانٹ کر میڈیا میں آسکیں ‘ کہیں یہ خواہش کہ خوب شور مچاؤ نام بھی ہوگا شہرت بھی ‘مگر سیاست دانوں کے شور شرابے اس ملک کو سوائے نقصان پہنچانے کے اور کچھ نہیں دے سکے آج شرمناک افسوس ناک مقام ہے کہ صرف ملک کی دولت کو لوٹ کر کھانا تو سمجھ آتا ہے ‘لیکن حرص اتنی بڑھ گٰی کہ ملک میں دہشت گردی میں بھی یہی لوگ ملوث
اس سے بڑھ کر افسوس کا کوٰئی مقام نہیں جیسے ہی ثبوت اکٹھے ہونے شروع ہوٰے تو ملک سے کخٰی اہم چہرے اور وجود یوں غاٰب ہوٰے جیسے وہ کبھی سیاست میں تھے ہی نہیں پاکستان کو ناقابلَ تلافی نقصان پہنچانے والوں کو بے شک انٹر پول کے ذریعے واپس لایا جاٰئے انہیں لایا جائے کیونکہ اس ملک کا رواج بن گیا ہے کہ بڑا یا کوٰئی امیر جو مرضی کہہ دے جو مرضی کر لے اسے ضبط کر جاؤ لیکن اس ضبط کا نتیجہ کہ ایسے ہمارے نوجوان ان کی غلطیوں کا ان کے کئے کا ازالہ اپنی اجنیں دے کر کر ہے ہیں اتنے قیمتی ہیرے صرف اس لٰئے اب دنیا مں نہیں ہیں کیونکہ ان کے ملک کی سیاست خود دیمک بن کر پاکستان کو اندر سے کمزور کر گٰی جسے اب ناپاک ہاتھوں سے نکال کر جنرل راحیل ایک ایک جوان کے خون کا بدلہ قہر بن کر مزید جارحانہ انداز میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کر کے لے رہے ہیں ‘ یہی وجہ ہے پاکستانی فوج کے جوانوں کا مورال بہت بلند ہے مستقبل میں اپنی نسلوں کا تحفظ یقینی بنانے تک ایسی قربانیاں دینا ہوں گی
پاکستان کی عوام بہت اچھی طرح جان چکی ہے کہ اس ملک میں اگر کسی نے 67 سالوں میں کچھ کر دکھایا ہے تو وہ صرف پاک فوج ہے فوج تو پہلے بھی تھی لیکن افسوس کہ ماضی افواجَ پاکستان کے سربراہ کا کردار ہمیشہ مبہم رہا ‘ پہلی بار تاریخی کردار ملا ہے جس نے بتا دیا کہ واقعی ا ادارہ ایک پڑھے لکھے زہین دلیر اور محب وطن کے پاس ہو تو آج بھی ہماری فوج جیسا کسی کا جگرا نہیں جنوبی ایشیا کے معاملات مبہت تیزی سے تبدیلی کی طرف دکھائی دے رہے ہیں ایک طرف تو پشاور سانحہ آج جو کچھ ہوا دوسری طرف آج سری نگر کی جامع مسجد میں پھر سے پاکستان کا جھنڈا لہرا دیا گیا ہے ‘پرچم کا،لہرانا اب علامت نہیں مزاحمت بن چکی ہے اور اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ یہ آخری احتجاجی نشان ہے کشمیری عوام کا صبر پیمانے سے لبریز ہو گیا اور اب وہ بھی تخت یا تختہ کا عنوان بن گٰے پاکستان جن دنوں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا
سعودیہ ہو مصر یا سوڈان صومالیہ نجانے کیوں اس کے دگرگوں حالات کے باوجود سب اس کو سمجھتے کہ یہ نجات دہندہ ہے جہاں جہاں امتَ مسلمہ پریشان ہو پاکستان ایک طاقت بن کر ان کی نگاہوں میں ابھرتا ہے کشمیری عوام کو بھی اب غیور سپہ سالار کی مدعیت میں نیا پاکستان کامیابی کی شاہراہ پے چلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریک بھی جو کبھی سرد ہوتی اور کبھی سیاسی اتار چڑہاؤ سے گرم اب تواتر سے روشن سویرے کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہے’
سیاست سے اب منافقت نکل گٰی اور عوام نے لبیک کہا یہی وجہ ہے کہ اب کشمیر بھی اپنے حتمی کامیابی کے دور میں داخل ہوتا دکھاٰی دے رہا ہے ‘کشمیری کبھی ڈرا نہیں کبھی جھکا نہیں قربانیوں کا ایسا سلسلہ ہے کہ اس کی نسلیں آزاد ہو کر اس کے چپہ چپہ کو چوم چوم کر اسکی حفاظت کریں گی ‘پاکستان پر آج کے اس حملے کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر بروقت حملہ آوروں کو سنبھالا نہ جاتا تو نجانے آج اس وقت ہم کن قیمتی اثاثوں سے محروم ہو گٰے ہوتے کیپٹن اسفند یار کی شہادت پاکستان کی سالمیت بقا کی تاریخ میں ہمیشہ روشن حروف سے لکھی جاٰئے گی
یہ ہیں وہ غیرت مند سپوت جن کے والدین آج فخر سے کہہ رہے ہیں وطنَ عزیز پر قربان ہوا ہے میرا بیٹا مجھے فخر ہے یقینی طور پے آج کے شاندار جرآت مندانہ مقابلے میں شہید ہونے والے اس نوجوان کیپٹن کو اعلیٍ فوجی اعزاز سے نوازا جاناچاہیے ‘ سینے پر زخم کھانے والا یہ نوجوان ثابت کر گیا کہ مرنا تو سب نے ہے لیکن کچھ موتیں ایسی ہیں جو زندہ رہتی ہیں ہمیشہ یادوں میں اداروں میں سوچوں میں اور تاریخ میں مبارک ہو غیرت مند بیٹے کے والدین آپکو جنرل راحیل آپکو ایسے غیرت مند سپوت آپ کے پاس ہیں جو دفاعَ وطن صرف اس لٰے کرتے ہیں کہ اس ملک کے بچے اور عورتیں باعزت انداز میں آزاد پرسکون خوشگوار زندگی گزار سکیں
ذرا سوچئے موت تو وہاں کٰی افراد کو ملی؟ 3 وہ جن کیلٰے ہر زبان دعاگو ہے اور ہر آنکھ اشکبار ہر باضمیر پاکستانی زیر بار دوسری طرف کھلے آسمان تلے وہ لاشیں جنہیں دیکھ کر ہر کوٰئی لعن طعن کر رہا ہے نہ ان کے لئے کسی کے دل میں ہمدردی ہے اور نہ ہی کوٰئی دعا؟ نجانے یہ لوگ کن پریشان کُن حالات کا تمام عمر شکار رہے ہیں جو ہر احساس ہر جذبے سے عاری ہو کر کبھی بچوں پر وار کرتے ہیں تو کبھیہ نتی عورتوں کو جلا دیتے ہیں
سفاک ظالم انسانیت کے نام پر دھبہ پاکستان کو مٹانے والو ابھی بہت ہیں تمہیں نیست و نابود کرنے والے اس ملک کو انشاءاللہ کویی گزند نہیں پہنچے گی ‘ کیپٹن اسفند اور آپکے ساتھیوں کیلئے
اے راہَ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہواٰئیں سلام کہتی ہیں
تحریر : شاہ بانو میر