تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
کپتان صاحب کے ”سالے صاحب” زیک سمتھ توچاروں شانے چِٹ ہو گئے۔ بس ڈرائیور کے بیٹے نے ریکارڈ ووٹوں کے ساتھ زیک سمتھ کو شکست دے کر کسی بھی غیرملکی دارالحکومت میں منتخب ہونے والے پہلے میئر کا اعزاز حاصل کر لیا۔ پاکستانی کمیونٹی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور نومنتخب میئر نے اعلان کیا کہ انھیں مسلمان اور پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ جمائما نے بھی صادق خاں کو میئر منتخب ہونے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ صادق خاں مسلمانوں کے لیے اعلیٰ مثال ہیں۔ صادق خاں نے گیارہ لاکھ اور زیک سمتھ نے 9 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ ہمارے کپتان صاحب تو اپنے سابقہ ”سالے” کی انتخابی مہم کے لیے لندن بھی گئے اور وہاں جا کر پاکستانی کمیونٹی میں زیک سمتھ کی کنویسنگ بھی کرتے رہے لیکن کچھ بَن نہ پڑا۔ ہو سکتا ہے کہ اب وہ زیک سمتھ کو یہ مشورہ دیں کہ وہ بھی دھاندلی دھاندلی کا شور مچاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں، کیونکہ خان صاحب کے ”کاغذوں” میں تو جس انتخاب میں ان کی جیت نہیں ہوتی وہاں صرف دھاندلی ہوتی ہے۔ اسی لیے 2013ء کے انتخابات میں شکست کے بعد انھوں نے فرمایا
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
انھوں نے دھرنوں سمیت زور تو بہت مارا لیکن سب کچھ ”ٹائیں ٹائیں فِش” ہو گیا۔ پھر ”پانامالیکس” کا غلغلہ شروع ہوا تو خاں صاحب کی آنکھوں کی چمک دوگنی ہو گئی اور انھیں وزارتِ عظمیٰ کے خوابوں کی ایک دفعہ پھر بدہضمی ہو گئی۔ انھوں نے 2014ء کے دھرنوں کا ”ایکشن ری پلے” کرنے کی ٹھانی۔ پہلے انھوں نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ پیپلزپارٹی تو استعفے کے مطالبے میں ان کی ہمنوا نہیں تھی لیکن اعتزازاحسن نے اس معاملے میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس احمقانہ مہم میں ناکامی کے بعد کپتان صاحب دھمکیوں پر اتر آئے اور ایک دفعہ پھر دھرنوں کی ”رٹ” سنائی دینے لگی۔ وہ کبھی رائیونڈ کی بات کرتے تو کبھی ڈی چوک اسلام آباد کی۔ لیکن اب کی بار حکومت کا ”موڈ” کچھ اور تھا۔
وزیراعظم نے اپوزیشن کا یہ جائز مطالبہ تسلیم کر لیا اور کسی ریٹائرڈ جج کی سربراہی کی بجائے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھ کر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا کہہ دیا۔ پھر معاملہ ٹی او آرز پر آ گیا تو خان صاحب کو وزیراعظم کے استعفے میں ناکامی ایک دفعہ پھر کامیابی میں ڈھلتی نظر آئی۔ چشمِ فلک نے یہ عجب نظارہ بھی دیکھا کہ خاں صاحب نے ان لوگوں سے بھی ہاتھ ملا لیا، جن کے خلاف بولتے بولتے ان کا حلق خشک ہو چکا تھا۔ اللہ رے وزارتِ عظمیٰ کا شوق کہ خان صاحب کو اب آصف زرداری صاحب بھی فرشتہ نظر آنے لگے۔ اپوزیشن کو سب سے بڑا دھچکہ اس وقت لگا جب حکومت نے اپوزیشن کے ٹی اوآرز کو یکسر مسترد کر دیا۔
اعتزازاحسن صاحب فرمانے لگے کہ حکومتی اور اپوزیشن کے ٹی اوآرز میں فرق صرف اتنا ہے کہ ہم سب سے پہلے وزیراعظم اور ان کے خاندان کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گویا حکومتی اور اپوزیشن کے ٹی او آرز ایک ہیں۔ اب رہی بات وزیراعظم اور ان کے خاندان کے سب سے پہلے احتساب کی، تو ایسا کیوں؟ سبھی کا بیک وقت احتساب کیوں نہیں؟ ویسے بھی یہ معاملہ چیف جسٹس پر کیوں نہیں چھوڑ دیا جاتا جبکہ وزیراعظم کہہ بھی چکے کہ اگر چیف جسٹس چاہیں تو ان کا اور ان کے خاندان کا سب سے پہلے احتساب کر لیں۔ لیکن کپتان صاحب کا موڈ احتساب نہیں انتشار کا ہے۔ لاہور میں حکومت کی طرف سے اجازت نہ ملنے کے باوجود انھوں نے مال روڈ پر محفل سجا ڈالی لیکن ہوا یہ کہ وہاں چشمِ فلک نے وہ کچھ دیکھا کہ سر ندامت سے جھک گئے۔
حسبِ سابق اور حسبِ عادت خاں صاحب نے عورتوں سے بدتمیزی کا الزام ”کھٹاک” سے نوازلیگ پر دھر کر اسے سازش قرار دے دیا۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں یومِ تاسیس کے موقعے پر بدنظمی اور خواتین سے بدتمیزی پر خاں صاحب معافی مانگ چکے۔ اپنے جلسوں میں اس صورتِ حال سے گھبرائے ہوئے خاں صاحب نے فیصل آباد میں اتوار 14 مئی کو ہونے والے جلسے کی منسوخی کا اعلان کر کے اب خیبرپختونخواہ کا رخ کر لیا ہے۔ وہاں ان کی پولیس بھی اپنی ہے اور صوبائی حکومت کے وسائل بھی اپنے۔ اب وہ 9 مئی کو پشاور اور بعدازاں بنوں میں جلسے کرنے جا رہے ہیں۔
ادھر ہمارے میاںنوازشریف بھی جلتی پر تیل ڈالنے کے ماہر ہیں۔ انھوں نے سکھر میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”دہشت گردی اور دھرنوں میں کیا فرق ہے؟ دونوں ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ دھرنوں اور ایجی ٹیشن کے ذریعے سڑکیں بلاک کر کے پاکستان کو اندھیروں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ دھرنے نہ ہوتے تو راہداری منصوبہ پہلے مکمل ہو چکا ہوتا۔ پاکستان جب بھی ترقی کرنے لگتا ہے کچھ لوگ وار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔” انھوں نے قائدِحزب اختلاف سید خورشید شاہ کو نام لے کر انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ”خورشید شاہ سے کہتا ہوں میرے دوست! ہم تمھارے علاقے میں پُل بنا رہے ہیں اور تم ہمارے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہو، ایسا کیوں بھائی؟ جواباً مرنجاں مرنج سیدخورشید شاہ نے کہا ”ہم نے وزیراعظم سے استعفیٰ نہیں مانگا، انھیں غلط گائیڈ کیا گیا ہے۔
البتہ دہشت گردوں اور سیاسی مخالفین کو ایک قرار دینا درست نہیں۔” ہم سیدخورشید شاہ سے دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ سیاسی مخالفت جب ملکی مخالفت میں ڈھل جائے تو اسے دہشت گردی نہ کہیں تو کیا کہیں؟ آج پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی ایک صفحے پر ہیں لیکن اگست 2014ء میں جو کچھ ہوا، اس کے شاہ صاحب عینی شاہد بھی ہیں۔ وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا وہ کھلی دہشت گردی نہیں تھی جس کا نظارہ 2014ء میں پوری قوم نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں کیا؟ کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں تھی کہ چین کے صدر کو انہی دھرنوں کی وجہ سے اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔
کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں تھی کہ پارلیمنٹ کے گیٹ توڑ کر اس کے لان پر قبضہ کر لیا گیا؟ کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں تھی کہ پی ٹی وی پر ”سونامیوں” نے قبضہ کر لیا؟ کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں تھی کہ خود کپتان صاحب نے ایک تھانے میں جا کر اپنے کارکنان کو زبردستی چھڑوا لیا؟ اور کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں تھی کہ وزیراعظم ہائوس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی؟ اگر یہ دہشت گردی نہیں تھی تو پھر شاہ صاحب ہمیں دہشت گردی کا مطلب سمجھا دیں۔
آج شاہ صاحب انہی لوگوں کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں، جن کے بارے میں ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ بات اگر ٹی او آرز کی ہے تو اس پر تو حکومت بھی بات کرنے کو تیار ہے لیکن کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں کہ کپتان صاحب کہتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ نے حکومتی ٹی او آرز کے تحت کمیشن بنایا تو ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ کیا دنیا میں کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اعلیٰ ترین عدالت پر بھی اعتماد نہ کیا جائے۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر