تحریر: لقمان اسد
لاہور زندہ دلوں کا شہر ہے زندہ دلاں لاہور نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ جعلی مینڈیٹ والوں کے ساتھ نہیں کھڑے کل کپتان کی لاہور آمد پر جس طرح اہل لاہو اُمڈ آئے وہ رائے ونڈ کے بادشاہوں کیلئے آنے والے کل کا نقشہ ہے اب بھی وقت ہے کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھیں اور سبق سیکھیں اب تک وہ اس زعم میں تھے کہ ہم دیکھیں گے کیسے عمران لاہور بند کرتا ہے لیکن اُنہی کے شہر لاہور میں عوام کے سمندر نے ہر دعوے کو یکسر مسترد کر دیا۔
جنوبی پنجاب کا سارا بجٹ لاہور پر خرچ کرنے والے شریف زادوں پر لاہور کے زندہ دلان نے کل واضح کردیا کہ وہ سو جتن چاہیں کریں جتنے ترقیاتی منصوبے دیں ،جتنی میٹرو بس سروسز کا آغاز کریں ،جتنی تعداد میں چاہیں اندر پاسز ،اور ہیڈ بریجز بنادیں لیکن ظلم دھاندلی اور دھونس پر زندہ دلان لاہور کو خاموش تماشائی نہیں بنایا جاسکتا
دنیا میں قتیل اُس سا منافق نہیں کوئی جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
قتیل شفائی کے اس شعر کے مصداق لاہوریوں کا یہ عزم اُجاگر ہوکر لاہور کی شاہراہوں پر بکھر گیا کہ وہ ظلم کے نظام کے سامنے سر تسلیم خم نہ کریں گے کل جب لاہور کی فضا میں ”گو نواز گو ”کے فلک شگاف نعرے بلند ہورہے تھے تو رائے ونڈ کے محلات میں محصور میاں برادران اپنے سیاسی مربی اور پیر و مرشد آصف علی زرداری سے ٹیلی فون پر آئندہ کے لائحہ عمل کی مشاورت میں مصروف رہے ہوں گے لیکن لاڑکانہ اور پھر کراچی میں تحریک انصاف کے سیاسی شو آف پاور ابھی تک آصف علی زرداری کے ذہن پر بوجھ ہیں اور وہ اپنی جماعت کا شیرازہ بکھرتا دیکھ کر پہلے ہی سخت ذہنی اذیت کا شکار ہیں 2013کے الیکشن سے قبل سیاست کے خود ساختہ ڈاکٹر کا تجزیہ محض یہ تھا کہ عمران خان لاہور کی ممی ڈیڈی بر گر کلاس کا ہیرو ہے اور ن لیگیوں کیلئے درد ِ سر مگر جب پی ٹی آئی کے ٹائیگرز اُن کی ہی جماعت کے سیاسی قبلہ لاڑکانہ پر حملہ آور ہوئے اور ایک کامیاب سیاسی اجتماع کرکے وہان اپنی فتح کے جھنڈے گاڑے تب اُس نے کہا سیاست میں ایک بھیڑیا آیا ہوا ہے۔
چند ماہ تک اُس کی سیاست دفن ہو جائیگی لیکن اُن کا تجزیہ حالات نے غلط ثابت کر دیا ہے اور حالات جس ڈگر پر چل نکلے ہیں وہ تو اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ باریوں کی سیاست دفن ہونے کا وقت قریب آپہنچا ہے اور کپتان کی جارحانہ سیاسی اننگز نے باری کے فلسفہ پر قائم ذاتی مفادات کا کھیل کھیلنے والوں کی بے بصیرت سیاست کا قلع قمع کرنے کا کوئی دقیقہ واگزاشت نہیں چھوڑا چار حلقوں میں ہونے والی دھاندلی پر تحقیقات کا مطالبہ مسترد کرنے والوں کو وطن عزیز کی اکثریت نے یکسر مسترد کر دیا ہے کہ اب نواب شاہ کا زرداری عوام کے سونامی سے اُنہیں بچا نہیں سکتا سیاست کے اُس خود ساختہ ڈاکٹر کے حوالے سے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ جب وہ اقتدار کے سنگھاسن پر بر اجمان ہوئے تو اُن کے سیاسی پلڑے میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کا وزن تھا اور آج اگر وہ پارٹی کو اُس سطح پر لے آئیں گے جہاں عوامی طاقت اُس کا خاصہ تھا۔
تب یہ بھی مانا جائے گا کہ اُس کا ہاتھ واقعتاً عوام کی نبض پر ہے وگرنہ وہ ڈاکٹر کاہے کا بہر حال کپتان نے بھٹو اور بے نظیر کے لاڑکانہ کے بعد داتا کی نگری میں بھی اپنی جارحانہ فتح کے جھنڈے گاڑھ دیئے ہیں کالم جب لکھا جارہا تھا تو حسب دستور وزیر اطلاعات پرویز رشید ٹی وی پر نمودار تھے اور فرمارہے تھے چار جانیں عمران خان کی سیاست کی نذر ہو چکی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اُن کر قاتل کون ہیں اور اس پریس کانفرنس میں اُنہوں نے ماڈل ٹائون میں جان کی بازی ہارنے والوں کا ذکر کیوں نہ کیا یہ کیوں نہ بتایا سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات کس سرد خانے میں دب کر رہ گئی ہیں؟
تحریر: لقمان اسد