تحریر : عبدالرزاق
پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان جو جذباتی سیاست کے حوالے سے معروف ہیں ایک مرتبہ پھر سیاسی ہلچل مچانے کے موڈمیں ہیں اور ماہ اگست کے اوائل میں پاناما لیکس کے انکشافات کو بنیاد بنا کر خکومت کے خلاف تحریک چلانے کا حتمی فیصلہ کر چکے ہیں۔
اگرچہ تحریک انصاف کے بیشتر سینیر ارکان اس تحریک کے حق میں نہیں ہیں اور وہ دبے لفظوں اس عمل کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن عمر ان خان نے اپنے ان ساتھیوں کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ اگر وہ حکومت مخالف تحریک کے حق میں نہیں ہیں تو وہ اپنا بوریا بستر گول کر کے کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں عمران خان کے اس سخت پیغام کی روشنی میں بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ حکومت مخالف تحریک ہر صورت چلانا چاہتے ہیں چاہے اس کے بدلے ان کی رہی سہی عوامی مقبولیت کا دھڑن تختہ ہی کیوں نہ ہو جائے۔
عمران خان اگر اپنی بصیرت کی کھڑیاں وا کر کے دو تین پہلووں پر غور کر لیں تو شاید ان کو اپنی اس تحریک کا انجام حقائق کے آئینہ میں ابھی سے نظر آ جائے اور وہ دھرنا دینے جیسی فاش غلطی سے اجتناب برت لیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کی دھرنے کی کال پر پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ پارٹی میں موجود کچھ بصیرت افروز ہستیوں کے خیال میں یہ مشق بے کار ہے کیونکہ ن لیگ کی مقبولیت ابھی تک عوام میں جوں کی توں موجود ہے اور عوامی بے چینی کی لہر اس نہج کو نہیں پہنچی کہ عوام لٹھ لے کر حکومت کے پیچھے پڑ جائے اور اس سے چھٹکارے کے لیے تگ و دو کرنا شروع کر دے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں آزاد کشمیر میں ہونے والے شفاف الیکشن میں ن لیگ دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے جس سے ن لیگ نفسیاتی برتری کا شکار ہے اور پر اعتماد ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں ۔ اس اعتماد کے نتیجہ میں عمران خان کی تحریک کے اثرات اس قدر بھی مرتب نہ ہو پائیں گے جو کچھ عرصہ قبل موصوف دھرنا ون کے ذریعہ حاصل کر چکے ہیں ۔تیسرا پہلو جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس مرتبہ بھی تحریک انصاف سے فاصلہ پر ہی رہے گی اور اندر کھاتے ن لیگ کوسپورٹ کرے گی۔
پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر عمران کا یہ شو بھی فلاپ ہو گا اور ماضی کی طرح وہ پھر بہانہ کی تلاش میں ہوں گے کہ اس مشق کو کیسے سمیٹا جائے لیکن تب تک پارٹی سمیت عمران خان کی عوامی مقبولیت زمین بوس ہو چکی ہو گی اور یہ دھرنا سیاست خان صاحب کے لیے پچھتاوا بن کر رہ جائے گی ۔ عمران خان کو اپنے فیصلہ کو حتمی شکل دینے سے پہلے یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان طرح طرح کے ان گنت بحرانوں کی زد میں ہے اس قسم کے اجتماع،دھرنے اور احتجاج ملکی ترقی کے پہیہ کو مذید زنگ آلود کر دیں گے اور یہ عمل کسی صورت بھی حوصلہ افزائی کے قابل نہیں ہے۔ پاکستان کو اس وقت دشمن کی بدترین چالوں کا سامنا ہے۔
پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے پراکسی وار نقطہ عروج کو چھو رہی ہے ۔علاوہ ازیں پاکستان اندرونی بحرانوں کی بھی لپیٹ میں ہے ۔ دہشت گردی کا عذاب اک مدت سے ہمارے امن و امان کے گل و گلزار کو اجاڑ رہا ہے جس کی وجہ سے گوناگوں مسائل کا اک ڈھیر جمع ہو چکا ہے جس سے وطن عزیز نبرد آزما ہے ۔ گیس،بجلی،پانی کی قلت کے علاوہ مہنگائی اور بے روزگاری نے بھی میرے ہم وطن بھائیوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے ۔ اس حقیقی صورتحال کو دیکھ کر بھی اگر عمران خان اپنے فیصلہ پر نظر ثانی نہیں کرتے تو میری دانست میں انکے دھرنا دھرنا کھیلنے کے عمل سے جہاں پاکستان کی ترقی پر ضرب لگنے کے خدشات ہیں اس سے بھی بڑھ کر ان کی اپنی سیاست پر بے پناہ منفی اثرات مرتب ہونے کے امکانات روشن ہیں۔
علاوہ ازیں شنید ہے کہ آزاد جموں و کشمیر الیکشن میں ناکامی کے بعد سے تحریک انصاف میں پھوٹ پڑ چکی ہے جبکہ تحریک انصاف کے کچھ سینیر رہنماوں کا تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سوچ کے بر عکس یہ خیال ہے کہ تحریک انصاف کو اپنے حقیقی چہرے ہی انتخابی میدان میں اتارنے چاہییں کیونکہ پرانے اور روائیتی سیاسی امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارنے سے پارٹی مقبولیت پر شدید ضرب لگی ہے ۔اس قسم کی سوچ کے حامل افراد میں سابق صوبائی صد ر تحریک انصاف ا عجاز چوہدری سر فہرست ہیں جن کا بیان بھی اس ضمن میں میڈیا کی زینت بن چکا ہے۔
اس کے علاوہ چوہدری سرور جو مسلم لیگ چھوڑ کر بڑے جوش وجذبہ سے تحریک انصاف میں شامل ہوے تھے اور اس جماعت کے پلیٹ فارم سے عوامی خدمت کے جھنڈے گاڑنے کے خواہشمند تھے تحریک انصاف کی اندرونی سیاسی رسہ کشی سے تنگ آ کر ان دنوں سیاسی افق سے ہی غائب ہیں اور بعض اوقات تو ان سے متعلق پارٹی چھوڑنے کی افواہیں بھی گردش کرنے لگتی ہیں ۔میری دانست میں تحریک انصاف کو جہاں عمران خان کے جلد باز فیصلوں نے نقصان پہنچایا ہے وہیں تحریک انصاف میں پرانے اور نئے انصافی کارکنوں کی باہمی کش مکش نے بھی پارٹی مقبولیت پر کاری ضرب لگائی ہے۔
دوسری جانب میاں نواز شریف نے مظفر آباد میں اجتماع عام سے خطاب کرتے ہوے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور خوب طنزکے نشتر برسائے ۔ میاں صاحب کی تقریر میں اعتماد کی جھلک واضح دکھائی دے رہی تھی اور عوامی تائید کا مکمل یقین ان کی باڈی لینگوئج سے نمایاں دیکھا جا سکتا تھا ۔کچھ دن پہلے تک ن لیگ کی صفوں میں بے چینی کی اطلاعات میڈیا تک پہنچ رہی تھیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ن لیگ کے لیے آنے والے کچھ ماہ آزمائش کی صورت ہوں گے لیکن پے در پے دو ایسے واقعات نے جنم لیا ہے جس سے ن لیگ کی روح تر وتازہ ہو گئی ہے ۔ ایک ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی اور دوسرا آزاد جموں و کشمیر کے الیکشن میں دو تہائی اکثریت کی کامیابی نے ن لیگ کی قیادت کے اعتماد میں نئی روح پھونک دی ہے۔
ان حالات کو بھانپتے ہوے خان صاحب کو دور اندیشی کی عینک چڑھا کر سوچنا چاہیے کہ اس مرتبہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہیں ہو گی اور نہ ہی وہ عوام کا ٹھاٹیں مارتا سمندر اکٹھا کر پائیں گے ۔ اس مرتبہ تو طاہر القادری بھی عمران خان سے شاکی نظر آتے ہیں اور ان کا بھر پور ساتھ بھی ملنے کی امید نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوے ایک عام فہم شخص بھی دھرنے کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائی کر سکتا ہے ۔ لہٰذا عمران خان جو پاکستان کے ہیرو ہیں اور پاکستانی سیاست کا قیمتی اثاثہ ہیں ان کو اتنی آسانی سے اپنی اٹھارہ بیس سالہ محنت پر پانی نہیں پھیرنا چاہیے اور خیال افروز شخصیات کے مشوروں کی روشنی میں اپنے دھرنے اور تحریک چلانے کے فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ ان کی سیاست کا بھرم بھی برقرار رہے اور پاکستان کے مفادات پر بھی کوئی آنچ نہ آئے۔
تحریر : عبدالرزاق