تحریر: پروفیسر مظہر
کپتان صاحب کا تصوراتی و تخیلاتی انقلاب محض سراب ۔جذباتی نوجوانوں نے جسے بحرِبے کنارسمجھا ،وہ محض حباب ۔دعویٰ قیادت کالیکن قائدانہ صلاحیتیں نایاب ۔ سونامی پتہ نہیںکِس گٹرکی نذر ہو گئی اور نئے پاکستان کے سارے سپنے ادھورے ۔کہاجا سکتاہے کہ
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دِل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نکلا
تکذیب وتکفیر اُن کی گھُٹی میںپڑی ہوئی مگرسعی سے ہمیشہ گریزاں ۔یورپی یونین ،دولتِ مشترکہ ،ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئر ،ایشین نیٹ ورک فار فری الیکشن ،سبھی نے 2013ء کے انتخابات کوشفاف قراردیا ۔انتخابات سے پہلے قومی وبین الاقوامی سرویز مقبولیت کے گراف میں تحریکِ انصاف کونوازلیگ سے کہیںکم تَرقرار دیتے رہے لیکن نتیجہ جب قومی توقعات اور سرویزکے عین مطابق آیاتو خاںصاحب نے اُسے کھُلے دِل سے تسلیم کرنے کی بجائے احتجاجی سیاست کاڈول ڈالا۔ انتخابات کے بعد الیکشن 2013ء پرتحریکِ انصاف کی اپنی ہی بنائی گئی کمیٹی نے کہاکہ دھاندلی نہیںہوئی ،جماعت کے اندرسے بھی آوازیں اُٹھتی رہیں،عقیل وفہیم اصحاب نے قائل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن خاںصاحب کی وہی ڈفلی اوروہی راگ ۔”میںنہ مانوں” کی رَٹ بدستور اورایجنڈا محض افراتفری ۔دراصل وہ نرگسیت کے رَتھ پرسوار ہوکر اتنااونچا اُڑے کہ پہاڑوںکو ٹیلے سمجھنے لگے ۔ 126 روزہ دھرنادے کربھی دیکھ لیا، قدم قدم پریوٹرن بھی لیے،
پریس کانفرنسوں اورکنٹینر پرکھڑے ہوکرردی کاغذوں کے پلندے بطور ثبوت بھی لہرائے ،کسی کی ”انگلی” کھڑے ہونے کاانتظار بھی کرتے رہے ،ضدکرکے جوڈیشنل کمیشن بھی بناکر دیکھ لیالیکن نصیبہ ٹھہری ہزیمت ،صرف ہزیمت ۔ سچ یہی کہ کاٹھ کی ہنڈیا کبھی دوسری بار چڑھی نہ جھوٹ کے کھلیان میں نفرت کے بیج بونے والے کبھی کامران ٹھہرے ۔نتیجہ یہ نکلاکہ اپنوںمیں بھی اعتماد کھوتے چلے گئے ۔ہوسِ جاہ کی ٹپکتی رالوں کے درمیان اتنے جھوٹ بولے کہ ”جھوٹ” بھی شرم سے منہ چھپانے لگا ۔دعویٰ یہ کہ 90 دنوںمیں ملک کی تقدیر بدل دیں گے لیکن ایک ہزار دنوںمیں ایک صوبے کی تقدیر بھی نہ بدل سکے ۔
الزامات کی پٹاری کھولی تواپنے پرائے سبھی لپیٹ میں آگئے ۔جن کی تعریف میں رطب اللساں تھے اُنہی پرالزامات ک بوچھاڑ کردی ،اپنے بھی خفا ،بیگانے بھی ناخوش ۔ایک شیخ رشید ہی باقی بچے ہیں جو ”یوسفِ بے کارواں کی طرح اِدھر اُدھر بھٹکتے پھررہے تھے ۔ گلہ شیخ صاحب کویہ کہ اُن کی بے پناہ صلاحیتوںسے استفادہ کرنے والاکوئی نہیں ۔وہ خاںصاحب کی نظروںمیں ایسے جچے کہ اب صرف وہی باقی ہیں ،دوسرے کچھ ”ہوا” ہوگئے باقی تیاربیٹھے ہیں ۔اب یہ کہے بنا کوئی چارہ نہیں کہ وہ صاحبِ منزل نہیں ،بھٹکے ہوئے راہی ہیں ۔الیکشن 2013ء کوختم ہوئے تین سال گزرچکے لیکن خاںصاحب اب بھی الزامات کی پٹاری کھولے جابجا ۔زبان وہی غیر پارلیمانی جوشاید خاںصاحب کی فطرت کاحصہ بن چکی تھی۔جلال پور پیروالہ کے انتخابی جلسے میں اُنہی الزامات اور اُسی غیرپارلیمانی زبان کی گونج سنائی دی۔یہ محض ایک ضمنی انتخابی جلسہ تھا
جس میں خاںصاحب نے اپنے خطاب کے دوران نہ صرف حریف اُمیدوارکی ذات پر جملے کَسے بلکہ غیر پارلیمانی زبان بھی استعمال کی ۔اُنہوںنے کہا ”شریف برادران نے سیاستدانوں کو اپنے پیسے سے نہیں بلکہ جوہرٹاؤن میں پلاٹ دے کر اورعوام کے پیسے سے وفاداریاں خریدیں ۔پہلے قاسم نون کی بولی لگائی پھر دیوان کو ضلع کی چیئرمینی کالالچ دے کر خریدا۔شریف برادران نہ عوام پر پیسہ خرچ کرتے ہیں اورنہ ہی اِنہیں روزگار دیتے ہیں ۔اب کمیشن کے لیے لاہورمیں دو سو ارب روپے کی اورنج ٹرین بنارہے ہیں ۔یہاں کاپیسہ لوٹ کرباہر بھجوائیں گے جہاںاُن کے بچے یہ پیسہ لندن اوردبئی کی پراپرٹی خریدنے پر لگائیں گے ۔یہ امیرہو جائیںگے اورقوم مقروض ہوجائے گی”۔ خاںصاحب صرف الزامات کی سیاست کرتے ہیں لیکن اِن الزامات کے لیے نہ توکوئی مناسب فورم استعمال کرتے ہیںاور نہ ہی ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ہم نوازلیگ کے مدح سرانہیں ،نہ ہی مدح سرائی کاشوق ۔خامیاں اُن میںبھی بیشمار اور خرابیاں قطاراندر قطار ۔اگر خاںصاحب کے پاس اُن کے خلاف کوئی ثبوت موجودہے تووہ نیب یاسپریم کورٹ کی طرف رجوع کیوںنہیں کرتے؟۔ میاںنواز شریف کے صاحب زادے حسین نوازنے اُنہیں مناظرے کاکھُلا چیلنج دے رکھاہے ،وہ اُن کاسامنا کیوںنہیں کرتے ؟۔ اگروہ یہ سب کچھ اقتدارکے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے کررہے ہیں توپھر انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ دین میںتہمت لگانے والے کوکِن الفاظ میں پکاراجاتا ہے اوراُس کی سزاکیا ہے ۔
عمران خاںصاحب توہرضمنی الیکشن میںاپنی” آڑھت” سجالیتے ہیں ۔شایدہی کوئی ضمنی الیکشن ایساہو جہاں خاںصاحب نے انتخابی مہم میںحصّہ نہ لیاہو یا”میوزیکل کنسرٹ” نہ سجایاہو لیکن پارلیمنٹ کے اجلاس میںشرکت سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں حالانکہ پارلیمنٹ ہی وہ بہترین فورم ہے جہاں ہرالزام کا خاطرخواہ جواب مل سکتاہے ۔اُن کی پٹاری الزامات سے تولبالب لیکن ثبوتوںسے خالی اسی لیے وہ اِس انتظارمیں ہوتے ہیںکہ کب کوئی ضمنی انتخاب ہواور وہ اپنے دِل کی بھڑاس نکالیں ۔دوسری طرف ضمنی انتخابات کی انتخابی مہم میںنہ کبھی میاںنواز شریف کوحصہ لیتے دیکھا اورنہ ہی میاںشہباز شریف کو ۔نہ ہی اُنہوںنے کبھی خاںصاحب کے الزامات کاجواب دیاہے اسی لیے وہ کامران ہیں۔خاںصاحب کوبھی میاںبرادران کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے ایساہی طرزِعمل اختیارکرنا چاہیے ۔اُنہیں چاہیے کہ اپنی تمام تر توجہ خیبرپختونخوا میںترقیاتی کاموںکی طرف لگادیںاور ”نیاخیبرپختونخوا ” بناکر ثابت کردیں کہ ترقی کسے کہتے ہیں ۔پھر اُنہیںبھوٹ بولناپڑے گانہ یوٹرن لینا۔
تحریر: پروفیسر مظہر