تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم
کہتے ہیں سیاست بہت بے رحم ہوتی ہے اور اس کے سینہ میں دل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی مہنگائی کی چکی میں پسی عوام تو ان سیاستدانوں کو ” سیاہ ست دان ” کہہ کر اپنے جسم پہ لگے ہوئے زخموں پہ مرہم رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہیںابھی زیادہ عرصہ کی بات نہیں ہے پچھلے سال آزادی کے مہینہ میں آزادی کے روز یعنی یوم پاکستان پہ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف ”آزادی مارچ ” کیا جس کا بڑا اور اہم مقصد وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد نواز شریف سے استعفی لینا تھا اس آزادی مارچ میں ”گونوازگو”کے نعرہ مستانہ بھی متعارف کروایا گیا اوراس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ اس نعرہ کو عروج بھی بہت ملا،ایک نہیں ،دونہیں ،تین نہیں بلکہ دو سو بیس دنوں میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے متعددباروزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا عوام کو یہ بھی بخوبی یاد ہوگا کہ نہ صرف پارلیمنٹ کوبلکہ اس میں بیٹھے ہوئے سیاست دانوں کو ڈاکوئوںاورلٹیروں کے خطابات سے نوازہ گیا پچھلے عام انتخابات کے نتائج کویکسرمسترد کرتے ہوئے ان انتخابات میں دھاندلی کو جواز بنا کر اسمبلیوں کو بھی جعلی قرار دے دیا گیا
البتہ خیبر پختون خوا کی اسمبلی اور اس میں موجود ممبران کی یہ خوش قسمتی رہی کہ انہیں ڈاکوئوں اور لٹیروں جیسے القاب دینے سے گریز کیا گیا اور یہ اسمبلی بھی جعلی قرار نہیں دی گئی اٹھارہ اگست2014ء کو پاکستان تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئر مین مخدوم شاہ محمود قریشی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران قومی اسمبلی سمیت پنجاب اورسندھ اسمبلوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا تحریک انصاف کی سیاسی منافقت تو دیکھئے کہ ارکان استعفے دیکر دھرنے میں بیٹھے رہے یا گھر بیٹھے رہے مگر تنخواہیں وصول کرنے اور مراعات لینے میں انہیں کوئی عار نہیں تھی شاید وہ سمجھتے تھے ”مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔”آزادی مارچ کے دوران حکومت اور دھرنے والوں کے درمیان کئی بارمذاکرات ہوئے جو ”مذاق رات ” ہی رہے سانحہ پاکستان کے روز یعنی سولہ دسمبر کو ملکی تاریخ کا سب بڑا سانحہ پشاور ہوا تو ملکی سیاست میں ایک نیا موڑ آیا عسکری اور سیاسی قیادت ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھی ہوئی پاکستانی عوام بھی ایک قوم نظر آئی ” گونواز گو” کے نعرے لگانے والے اور وزیر اعظم سے استعفی لینے والے وزیر اعظم کے پہلومیں بیٹھنے پہ مجبور اور بے بس دکھائی دیئے کنٹینر پہ کھڑے ہوئے بے شمار بار کہنے والے” ہم استعفی لئے بغیر گھر نہیں جائیں گے
اگر دھرنے میں موجود ہر شخص بھی واپس لوٹ گیاتو میں واپس نہیں جائوں گا اور دھرنا جاری رکھوں گا”پاکستان کی عوام نے دیکھا کہ دھرنے والوں کے پلان جو اے سے زیڈ تک تھے ”دھرے کے دھرے”رہ گئے اور دھرنا رفو چکر ہوگیا دھرنے کے دنوں میں کنٹینر پر کھڑے ہوکرکیا کیا نہیں کہا گیا ، اسے جعلی اسمبلی اور جعلی پارلیمنٹ کہا گیا، اسمبلی میں بیٹھے ہوئے معزز ممبران کو جعلی کہا گیا حتی کہ اس اسمبلی کے سپیکر کو دھاندلی کی پیداوار کے خطاب سے نوازا گیا بلکہ اسمبلی میں جانے سے چند لمحات قبل بھی ”جعلی اسمبلی ” کا راپ الاپا گیاملک میں تو تبدیلی آنا تھی۔۔۔ نہ آئی البتہ عمران خان کے گھر میں تبدیلی ضرور آئی اور ریحام خاں سے شادی رچا لی گئی یہ تبدیلی اس وقت آئی جب سانحہ پشاور میں شہید ہونے والوں کے ورثاء کے زخم ابھی تازہ تھے
یمن کی صورتحال پر اہم فیصلوں کے لیے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف اپنے قائد سمیت میں آئے اسی ایوان میں دوبارہ تحریک انصاف کے مستعفی ارکان رونق افروز ہوئے جس اسمبلی کو جعلی کہا جاتا رہا ہے یوم پاکستان کے موقع پہ کئے جانے والے آزادی مارچ کے بعد خان صاحب اور پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی میں آئے اس موقع پر عمران خان اور پی ٹی آئی کیخلاف نعرے بھی لگے وزیر دفاع پی ٹی آئی کے خلاف خوب دل کھول کر بولے اور یہ صورت حال پی ٹی آئی کے لئے غیر متوقع تھی کیونکہ پی ٹی آئی تو حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ طے کر نے کے بعد اسمبلی میں آئی تھی جبکہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق ‘تشریف رکھیں ، تشریف رکھیں کی گردان ‘ دہراتے رہے اوراْن کاکہناتھاکہ پی ٹی آئی کے استعفے اپنی موت آپ مرچکے ہیں۔جبکہ وزیر دفاع نے اپنا ”رانجھا” راضی کیا اور یہ سب کچھ وزیر اعظم کی موجودگی میں ہوا
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیرصدارت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس شروع ہواتو لیگی اراکین نے ‘گوعمران گو’ ‘کے نعرے لگانے شروع کردیئے پی ٹی آئی کے اراکین کی قومی اسمبلی میں آمد جمہوریت کی فتح اور پارلیمنٹ کی بالادستی قبول کرنا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ پی ٹی آئی سے بائیکاٹ کے خاتمے کی وزیر خزانہ نے بھی اپیل کی تھی، پی ٹی آئی کا جو موقف پارلیمنٹ سے باہر تھا، انہوں نے اگر اس موقف کو ترک کیا ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ عوام کی بہتر نمائندگی اسی ایوان کے ذریعے ہو سکتی ہے تو یہ خوش آئند ہے دھرنوں نے پاکستانی معیشت کو متاثر کیا، فیصلے پارلیمان میں ہوتے ہیں ، سڑکوں پر نہیں لیکن صبح کا بھولا شام کو گھرآجائے توبھولا نہیں کہتے اسمبلیوں میں واپسی کے ساتھ ہی آئینی ماہرین نے خدشات کا اظہار کیا ہے پاکستان مسلم لیگ کے سید ظفر علی شاہ نے عدالت میں ایک رٹ دائر کر دی ہے کہ جب اسمبلیوں سے استعفی ہی دے دیا گیا ہے تو پھر اسمبلیوں میں جانا کیا معنی رکھتا ہے اس رٹ سے ایک نیا بحران پیدا ہونے کا امکان ہے
خان صاحب اپنی احتجاجی تحریک کے دورن باربار جس تبدیلی کر ذکر کیا کرتے تھے وہ تبدیلی ان کی اپنی سوچ میں آئی ہے کیونکہ وہی اسمبلی ہے، وہی پارلیمنٹ ہے، وہی عمارت ہے، وہی سپیکر ہے، وہی ایوان ہے۔کچھ بھی تو نہیں بدلا ، اگر بدلا تو خود عمران خان نے اپنامئوقف بدلا،اپنی سوچ بدلی اسے ہی تو تبدیلی کہا جاتا ہے کپتان کے یو ٹرن نے ثابت کیا کہ ان کا آزادی مارچ کا فیصلہ غلط تھا
تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم