لاہور (ویب ڈیسک) فرض تو عمران خان کا بنتا ہے کہ وہ اپنے والد کی صفائی میں بولیں مگر بلاول نے الزام تراشی کے ساتھ بھٹو کی جمہوریت پسندی کا ڈھنڈورا بھی پیٹا ہے اور ایک دلیر جرنیل حمید گل پر بھی کیچڑ اچھالا ہے۔ا سلئے میرے قلم کا بھی کچھ فرض بنتا ہے۔ نامور کالم نگار اسد اللہ غالب اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان تاریخ کا مطالعہ کریں تو انہیں اپنا یہ الزام غلط نظر آئے گا کہ بھٹو کو ایک فو جی آمر نے سیاست کا سبق پڑھایا۔ بلاول کا کہنا ہے کہ بھٹو اپنی صلاحیت کے بل پر اسکندر مرزا اور فیلڈ مارشل ایوب کی وزارت میں شامل ہوئے جبکہ عمران کے والد اکرام اللہ نیازی کو کرپشن کی وجہ سے بھٹو نے سرکاری نوکری سے فارغ کیا۔ جو لوگ اکرام اللہ نیازی سے ان کی زندگی میں ملتے رہے ہیں، ان میں پیپلز پارٹی ہی کے سابق سینیٹر اور پارٹی کے بنیادی رکن میاں احسان الحق شامل تھے۔ وہ برسوں سے لاہور جم خانہ میں محفل سجاتے ہیں جس میں مجھے بھی شمولیت کا موقع ملتا رہا ہے۔ اکرام اللہ نیازی بھی اسی ٹیبل پر براجمان ہو اکرتے تھے۔ یہ میاں صبیح الرحمان کی ٹیبل تھی جس پر سبھی گپ شپ کرتے ۔چائے کافی پیتے اور پھر گھر چلے جاتے، اکرام اللہ نیازی نے کبھی سیاست پر بات نہیں کی ، وہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے اور انیس سو انسٹھ تک سرکاری ملازمت کرتے رہے ،۔پھر انہوں نے ملازمت سے استعفی دیاا ور ری پبلکن انجینئر نگ کے نام سے اپنی کنسلٹنٹ فرم کھول لی۔جس کا دفتر زمان پارک لاہور میں تھا۔ میاں احسان کہتے ہیں کہ انیس سوباسٹھ میں وہ خودبھی ٹھیکیداری کرتے تھے اور اسلام آباد میں ایک یونیورسٹی کے نقشوں کی مشاورت کے لئے اکرام اللہ نیازی کی فرم ریپبلکن انجینئرنگ جایا کرتے تھے۔میاں احسان الحق کہتے ہیں کہ جب بھٹو نے اکہتر کے آخر میں اقتدار سنبھالا تو اکرام اللہ نیازی کی فرم ری پبلیکن انجینیئر نگ کا بزنس اپنے عروج پر تھا۔ اس لحاظ سے بلاول کا یہ دعوی کہ بھٹو نے اکرام اللہ نیازی کو کرپشن کے الزام میں سرکاری نوکری سے نکالا۔ ایک بے بنیاد بات ہے اور تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف بھی۔ میاں احسان کہتے ہیں کہ اکرام اللہ نیازی کی پیشہ ورانہ مہارت پر رائے لینی ہو تو اس دور کے ڈاکٹر مبشر حسن کی سطح کے انجینیئرز کی رائے اہمیت کی حامل ہو گی۔ جہاں تک بلاول کا یہ دعویٰ ہے کہ بھٹو اس ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم تھے۔ انہوںنے ملک کو پہلا دستور دیا اور جمہوریت کی بنیادیں مستحکم کیں تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ بھٹو دنیا میں پہلے سویلین چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر بنے۔ انہوں نے اپنی الیکشن مہم میں دھمکی دی تھی کہ وہ حکومت میں آئے تو سب سے پہلے زیڈ اے سلہری کو فکس اپ کریں گے۔انہوں نے اس دھمکی پر عمل کر دکھایا اور سلہری صاحب کو ملازمت سے فارغ کر دیا ، ا سکی وجہ صرف یہ تھی کہ سلہری صاحب بھٹو کی پالیسیوں کے نقاد تھے۔ تنقید کرنا ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے جسے بھٹو نے آتے ہی سلب کیا۔ اسی کے ساتھ ہی انہوںنے اردو ڈائجسٹ، ہفتہ روزندگی ا ور پنجاب پنچ کے ڈیکلریشن منسوخ کئے اور ان کے مالکان ا ور ایڈیٹروں ڈاکٹراعجاز قریشی، الطاف حسن قریشی، مجیب شامی، مظفر قادر اور حسین نقی کو جیل میں ڈال دیااور ان کا ٹرائل سمری ملٹری کورٹس سے کروایا جہاں سے انہیں کروڑوں کے جرمانے اور طویل مدت کی قید کی سزا سنائی گئی۔ بھٹو کی جمہوریت پسندی کی چند مثالیں یہ ہیں کہ جیسے ہی دستور منظور ہوا تو انہوںنے بنیادی حقوق معطل کر دئے اور ایک ننھی منی ۔ نحیف و نزار سی اپوزیشن کو اسکورٹی گارڈز کے ہاتھوں قومی اسمبلی کے ایوان سے باہر پھینکوا دیا،۔ جمہوریت ا ور انسانی حقوق کی مزید مثالیں یہ ہیں کہ بھٹو نے اپنے ہی ساتھی معراج محمد خان پر تشدد کروایا۔ اپنے مخالف میاں طفیل محمد کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جسے یہاں لکھنے سے میرا قلم تو قاصر ہے کیونکہیہ سلوک سرا سر انسانیت سوز تھا بلکہ میں تو اسے حیوانیت ہی کہوں گا۔ جمہوریت پسند بھٹو نے اپنے ساتھیوں کو اس حالت میں اغوا کرایا کہ ان کے گھر والوںکو ان کی زندگی یا موت کی کوئی خبر نہ تھی، ان لوگوں کو دلائی کیمپ میں بند رکھا گیا۔ اسی بھٹو نے ایف ایس ایف بنائی جس کے ذمے مخالفین سے انتقام لینا تھا۔ اسی ایف ایس ایف نے پاکستان قومی اتحاد کے احتجاجی مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر احمد رضا قصوری کے والد کو قتل کیا۔اسی قتل کا مقدمہ چلا تو بھٹو کوپھانسی کی سزا ہو گئی۔ تاریخ یہ بحث کرتی رہے گی کہ یہ سزا انصاف کے تقاضوں کے مطابق تھی یا ان کے منافی مگر فائل پر بھٹو کے ہاتھ سے یہ تحریر موجود تھی کہ احمد رضا قصوری کو ٹھکانے لگایا جائے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ احمد رضا قصوری کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی تو سوئے اتفاق سے ان کے والد اس میں سوار تھے جو موت کے منہ میں چلے گئے۔ تاریخ کو اس بات سے انکارنہیں کہ بھٹو نے ملک کو دستور دیا۔ ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی۔ کلکتہ کے جنگی کیمپوں سے نوے ہزار پاکستانی قیدیوں کورہائی دلوائیا ور بھارت کے قبضے سے ہزاروں مربع میل کا رقبہ واگزار کروایا مگر بھٹو نے جو کام غیر جمہوری کئے،وہ بھی اسی تاریخ کا حصہ ہیں اور ابھی تو یہ طے کرنا باقی ہے کہ جو الیکشن آل پاکستان کی بنیاد پر ہوا تھا، اس کی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے بھٹو نے مغربی پاکستان کے ارکان اسمبلی کو یہ کہہ کر کیوں روکا کہ جو ڈھاکہ جائے گا، ا سکی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اور یہی بھٹو تھے جنہوںنے مشرقی پاکستان میں آپریشن کے آغاز پر کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیاا ور بھٹو کے متوالوں کو اس بیان کی بھی تشریح کرنا پڑے گی کہ ادھر ہم اور ادھر تم کامطلب کیا تھا اور کیا یہ بیان پیپلز پارٹی کے طرفدار اخبار میں نہیںچھپا تھا۔ مجھے بھٹو سے کوئی پرخاش نہیں مگر جب بلاول تاریخ کا حوالہ دے گا تو لا محالہ تاریخ کو ا سکے صحیح سیاق و سباق میں پڑھنا پڑے گاا ورا سی تاریخ کے صفحات میں درج ہے کہ بھٹو نے ایوب کو ڈیڈی کا خطاب دے رکھا تھاا ور یہ انہی کی تجویز تھی کہ کنونشن مسلم لیگ کو ہر ڈپٹی کمشنر کے سپرد کر دیا جائے تاکہ اسے عوام میں منظم کیا جا سکے۔بلاول نے ایک تیر جنرل حمید گل پر بھی چلایا ہے ۔ حمید گل کا دفاع کرنے والا ایک بہت بڑا طبقہ موجود ہے مگر ان کے بیٹے عبداللہ گل نے تسلیم کیا ہے کہ ہاں ان کا باپ ایک جاسوس تھا اورا سکی جاسوسی کے نظریات دنیا کی انٹیلی جنس کی اکیڈمیوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ عبداللہ گل نے کہا ہے کہ انہیں اپنے والد کے کردار پر کوئی شرمندگی نہیں اس لئے کہ انہوںنے ایک سپر پاور کا تیا پانچہ کیاا ور ایک علاقائی منی سپر پاور کو کینڈے میں رکھا بلکہ آئی ایس آئی کو وہ مقام دلایا کہ دنیا اس سے تھر تھر کانپتی تھی۔ جنرل حمید گل جیسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے بعد علاقے یا دنیا میں ا س مقام و مرتبے کا انٹیلی جنس ماہر سامنے نہیں آ سکا۔ بھارتی را کو انہوں نے ناکوں چنے چبوائے۔آج آئی ایس آئی کی جو عزت ہے ، وہ نہ را کی ہے نہ خاد کی ہے نہ ایم آئی فائیو کی ہے اور نہ سی آئی اے اور نہ کے جی پی کی۔ یہ ساری ایجنسیاں دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئیں مگر آئی ایس آئی نے دہشت گردی کا قلع قمع کر کے اپنا لوہا منوایا۔ تاریخ ا سکے لئے جنرل حمید گل پر فخر کرتی رہے گی۔