بدقسمتی کی انتہا دیکھیے کہ من حیث القوم ہم ہمیشہ کسی بھی بہتری کے لیے ایک سانحے کے منتظررہتے ہیں۔ اسے دلچسپ کہیے یا باعث ماتم کہ ہمیں ایک مثبت تبدیلی کی توقع ہوتی ہے وہ بھی ایک سانحے سے۔ اب آپ خود اندازہ لگائیے کہ ایسی تبدیلی بھلا کس طرح مثبت ہو سکتی ہے جو ایک سانحے کا ثمر ہو؟
اس منفرد رویے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، بہرحال اگر پاکستان میں اس کی تازہ ترین مثال تلاش کریں تواس میں کھیل سرفہرست ہیں اور ان میں سے بھی سب سے آگے ہماری ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی قومی کرکٹ ٹیم ہے۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک ہی ملک ہے، ایک ہی کرکٹ بورڈ ہے، ایک ہی انتظامیہ ہے۔ اس ملک کی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم دنیا کی سرفہرست ٹیم ہے جبکہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیمیں سابقہ ورلڈ چیمپئن ہونے کے باوجود اس وقت رینکنگ میں انتہائی نچلے نمبروں پر ہیں۔
اِس تمام تر صورتحال میں خرابی کی ابتدا کہاں ہوئی، اس بارے میں یقین سے کہنا ناممکن ہے کیونکہ جتنا یہ ایک انتظامی معاملہ ہے، اُتنا نفسیاتی بھی ہے۔ ہم نفسیاتی پہلو کو فی الحال ٹالتے ہیں اور دوسری طرف کا جائزہ لیتے ہیں۔
جب کبھی کپتانی میں استحکام آیا تب ٹیم کی مجموعی کارکردگی میں بھی بہتری آئی۔ اسی کے ساتھ ٹیم کے انتخاب میں ٹھہراؤ نے بھی مثبت اثر ڈالا۔ لہٰذا سب سے اہم چیز ہے درست انتخاب اور پھر اس پر بھروسہ کرنا۔
ون ڈے کرکٹ کی زیادہ پرانی تاریخ کو چھوڑ کر ہم عمران خان کے دور سے ابتدا کرتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جس میں کپتان مکمل طور پر ملکی کرکٹ کے معاملات پر حاوی تھا۔
سلیکشن سے لے کر دیگر معاملات میں عمران خان کی رائے بھی فیصلہ تصور ہوتی تھی۔ اگرچہ اس دور کو آمرانہ کپتانی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے مگر اس کے نتیجے میں پاکستان کرکٹ کو کیا ملا یہ زیادہ اہم بات ہے۔
سب سے پہلے تو یہ کہ ٹیم کی قیادت طویل عرصہ کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ایک کپتان کے پاس رہی۔ ٹیم نے کئی کامیابیاں سمیٹیں، جن میں ہندوستان کو ہندوستان اور ویسٹ انڈیز کو ان کے ملک میں میں شکست دی جو کہ اُس دور میں ایک کارنامہ تصور کیا جاتا تھا۔
پھر غیر ملکی امپائرز کا انتخاب بھی ایک اہم تبدیلی تھی جس کی بدولت جینٹل مینز گیم کو مقامی امپائرز کی تقرری سے پہنچنے والے نقصان کا بڑی حد تک ازالہ ہوا۔
بعد ازاں ون ڈے ورلڈ کپ کی فتح اُس دور کا نقطہء عروج تھی۔ اس دوران عمران خان نے نوجوان کھلاڑیوں کی ایسی کھیپ تیار کی جس نے آگے چل کر بہت سارے کارنامے سر انجام دیے۔
وسیم اکرم، وقار یونس، عاقب جاوید، مشتاق احمد، انضمام الحق، معین خان، اعجاز احمد، سلیم ملک، عامر سہیل، سعید انور اور بے شمار نام ایسے ہیں جن پر اگلے دس سے پندرہ سال کی کرکٹ کا دار و مدار رہا۔
اس دور کی ایک انفرادیت یہ بھی تھی کہ ایک کپتان نے طویل عرصہ کامیابی کے ساتھ ذمہ داری نبھانے کے بعد بھرپور عزت اور مقبولیت کے ساتھ کھیل سے علیحدگی اختیار کرلی۔
مگر پھر وہاں سے سانحات اور مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک طاقتور کپتان کے جاتے ہی ٹیم میں کپتانی کے کئی دعویدار پیدا ہو گئے۔
جاوید میانداد، سلیم ملک، وسیم اکرم اور رمیز راجہ میں کپتانی کا میوزیکل چیئر پروگرام شروع ہو گیا۔ ٹیم کا شیرازہ بکھرتا گیا، یوں گیارہ قابل کھلاڑیوں کے باجود بھی بطور ٹیم نتائج حاصل نہ کیے جا سکے۔
حالانکہ 1992 سے 1996 کے دوران چار برسوں میں ٹیم ٹیلنٹ کے لحاظ سے عمران خان دور کی کسی بھی ٹیم سے کم از کم دو گنا زیادہ بہتر تھی۔
مگر رقابت، نشے، جوئے اور میچ فکسنگ جیسی مہلک بیماریوں نے ٹیم کو گھیر لیا۔ اِس دوران تمام تر ذمہ داری کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ پر تھی کہ وہ صورتحال کو حکمت سے سنبھالتی مگر عمران کے جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا جسے بھرنے کی خواہش لیے عملی کرکٹ سے منسلک ہر شخص سرگرداں تھا۔
اس خواہش کو صحت بخش اور مثبت رقابت میں ڈھالا نہ جا سکا، لہٰذا اس عمارت کی بنیاد ایسی ٹیڑھی پڑی کہ جس کا ٹیڑھا پن آج تک قائم ہے اور دیکھنے والوں کو اس میں مستقل نقص ہی دکھائی دیتے ہیں۔
چنانچہ معین خان، سعید انور، عامر سہیل، انضمام الحق، محمد یوسف، سلمان بٹ، شاہد آفریدی سے ہوتے ہوئے مصباح الحق، اظہر علی، سرفراز احمد تک مسائل وہیں کے وہیں ہیں جن کا حل معلوم ہونے کے باوجود نامعلوم حکمت عملی کے تحت درست اقدامات اٹھائے نہیں جاتے۔
یوں مجبوراً شائقین کرکٹ کو سانحات کا انتظار کرنا پڑتا ہے کہ جن کے نتیجے میں انہیں بہتری کی امید ہوتی ہے۔ یہ وہی سانحات ہیں جو ہمارے دیگر کھیلوں مثلاً ہاکی اور اسکواش میں رونما ہو چکے ہیں مگر بدقسمتی سے ان سانحات کے نتیجے میں سرے سے ان کھیلوں کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔
اب بھی اسی طرح کے معاملات کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ مثلا شاہد آفریدی اور اظہر علی کی قیادتوں میں ٹیم پرفارم نہیں کر رہی تو بجائے کپتان اور ٹیم میں مثبت تبدیلی لانے کے، اسے اسی طرح چلنے دیا جاتا ہے اور ایک مرحلہ آتا ہے جہاں شکستوں کے انبار تلے کپتان بھی کچلا جاتا ہے اور اس وقت تک مجموعی طور پر کھیل کے معیار، ٹیم کے حوصلے کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔
انحطاط کا عالم دیکھیے کہ کرکٹ بورڈ کی کمان ’تحفے‘ یا ’ذاتی خدمات‘ کے صلے طور پر دی جاتی رہی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ دنیا بھر کے کرکٹ بورڈز کا جائزہ لیں تو نسبتاً نوجوان اور پروفیشنلز کے ہاتھ میں باگ ڈور تھمائی جاتی ہے۔
مگر ہمارے ہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ غیر سنجیدہ اور غیر پیشہ ورانہ رویہ پورے ادارے کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے۔ نتیجے میں کرکٹ بورڈ انتظامیہ سے لے کر سیلیکٹرز، کوچز اور کھلاڑی بھی وقتا فوقتا مشکلات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
ماضی میں ایسی ٹیم بھی تشکیل دی گئی جس کا ہر کھلاڑی ’’کپتان‘‘ رہ چکا تھا یا بننے کا خواہش مند تھا۔ سلیکشن کمیٹی دفتر میں بیٹھے بیٹھے ٹیم منتخب کر لیتی اور بہت زیادہ زحمت کی تو پچھلے سیزن کا ریکارڈ دیکھ کر اکا دکا کھلاڑی تبدیل کر لیے جاتے۔
کبھی ایسا کوئی سلیکٹر دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا جو کسی جوہری کی طرح دور دراز کے چھوٹے بڑے گراؤنڈز میں ہیرے کو تلاش کر کے تراشنے کی جستجو میں ہوتا۔ پاکستان کرکٹ باقی دنیا سے بالکل مختلف ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ یہ ایک کانٹوں کی سیج بھی ہے جہاں ایک میچ جیتنے پر لوگ سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور ایک میچ ہارنے پر زمین پہ لا پٹختے ہیں۔
اِس ضمن میں مصباح الحق کی مثال سامنے ہے۔ ایک ایسا کھلاڑی جس کی حق تلفی کرتے ہوئے ان کے بین الاقوامی کرکٹ کریئر کی ابتدا تب کی گئی جب عام کھلاڑی اپنے کرئیر کے وسط میں ہوتے ہیں۔
شروع میں مصباح کو صرف ٹیسٹ میچز کا کھلاڑی کہا گیا مگر ان کی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کارکردگی نے لوگوں کی آرا میں کچھ تبدیلی کی۔ پھر ’’ٹک ٹک‘‘ کا خطاب، بزدل کپتان کے طعنے، ون ڈے اور ٹی ٹوئینٹی سے علیحدگی اور کرئیر میں ہر طرح کی اونچ نیچ دیکھنے کے بعد آج اُسی مصباح کی قیادت میں پاکستان ٹیسٹ کرکٹ کی سرفہرست ٹیم ہے۔
ایک ہی انتظامیہ کے نیچے لگ بھگ بیس کھلاڑیوں کے پول میں سے منتخب ہونی والی تینوں ٹیموں کی کارکردگی میں زمین و آسمان کا فرق کیوں؟
جناب عالی، محض ایک اچھا کپتان اوسط درجے کی ٹیم کی کارکردگی بھی اُٹھا کر اُسے مقابلے کے لائق بنا دیتا ہے۔ کسی کی کارکردگی دیکھنے کے بعد اس پر تبصرہ کرنا تو ایک علیحدہ کام ہے مگر کچھ انتخاب ایسے ہوتے ہیں جو کسوٹی پر اُترنے سے پہلے ہی عیاں ہوتے ہیں اور عام فہم رکھنے والا شخص بھی ان کے مستقبل میں جھانک سکتا ہے۔
اظہر علی کا انتخاب بطور ون ڈے کپتان اِس لحاظ سے مافوق الفطرت ہے کیونکہ ایسا کھلاڑی جس کی آج کی تیز رفتار ون ڈے کرکٹ میں جگہ ہی نہیں بنتی اُسے کپتان بنا کر مشکل میں ڈال دیا گیا ہے۔
اس پر طرہ یہ کہ پاکستانی ون ڈے کرکٹ ٹیم اُس دوراہے پر کھڑی ہے جہاں قرین از قیاس ہے کہ اسے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ون ڈے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑ سکتا ہے۔ جو کہ پاکستان میں دستیاب بہترین کرکٹ ٹیلنٹ کے ہوتے ہوئے ایک نہایت شرمناک صورتحال ہے۔
عامیانہ فیصلوں کے تسلسل نے ون ڈے رینکنگ کی اُس جنگ میں ٹیم کو پھنسا دیا ہے جہاں چومکھی لڑائی جاری ہے۔ یعنی سب سے پہلے کپتان اپنی جگہ بنانے کی نفسیاتی کشکمکش میں مبتلا ہے، دوسرا یہ کہ ہم زمانے کی رفتار سے کہیں پیچھے رہ گئے ہیں اور آج بھی دس پندرہ سالہ پرانی کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
تیسرا یہ کہ پاکستان میں بین الاقوامی میچز نہ ہونے کی وجہ سے مقامی کرکٹ کی حالت دگرگوں ہے اور ٹیلنٹ کو اظہار کے لیے مسابقتی مواقع دستیاب نہیں، چوتھا یہ کہ بورڈ کی بیشترانتظامیہ کا پروفیشنل کرکٹ سے کبھی بھی لینا دینا نہیں رہا۔
گو کہ حالیہ برسوں میں دہشتگردی کے ہاتھوں ہماری مقامی کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ دوسری جگہ ٹیسٹ کرکٹ ٹیم نمبر ون ٹیم ہے۔ لہٰذا یہ بذات خود گواہی ہے کہ حالات چاہے کچھ بھی ہوں اگر فیصلے درست ہوں تو درست نتائج کا حصول ناممکن نہیں ہے۔
مگر ہم ہیں کہ معمول کے مطابق پھر سے کسی سانحے کے انتظار میں ہیں کہ پہلے تو کوالیفائنگ راؤنڈ کا سانحہ رونما ہو، پھر اُس کو وجہ بناتے ہوئے اظہر علی کو قربانی کا بکرا بنایا جائے اور پھر سلیٹ کا محض ایک کونا مٹا کر وہاں دو نئے حرف لکھ کر یہ دکھایا جائے کہ ہم نے سب بدل دیا ہے اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ہم ایک نئے عزم اور اسی’پرانی‘ ٹیم اور انتظامیہ کے ساتھ دوبارہ میدان میں اترنے کے لیے تیار ہیں۔
ہمیں خود کو خوش قسمت سمجھنا چاہیے کہ مصباح الحق کی قیادت میں حاصل ہونے والے مثبت نتائج ہمیں قدرتی عمل کے تحت ملے وگرنہ اِس کے پیچھے کسی پلاننگ کا دور دور تک واسطہ ہی نہیں۔
شاید مصباح کو بھی کچھ عرصہ قبل تک معلوم ہی نہ ہو گا کہ ٹیسٹ ٹیم رینکنگ میں نمبر ون بن جائے گی کیونکہ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ ڈیڑھ دو سال پہلے ہی مصباح پر ہونے والی بے جا تنقید کو وجہ بناتے ہوئے ٹیسٹ ٹیم کا کپتان تبدیل کرنے کا بے تکا فیصلہ کر لیا جاتا اور نہ جانے پھر کون سے نتائج نکلتے۔
ون ڈے ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کھلینے کی تیاری کرتے ہوئے کم از کم اگلے تین سال کی پلاننگ کرنی ہوگی۔ ون ڈے ٹیم کا کپتان سرفراز احمد کو مقرر کیا جائے جو مستقبل میں مصباح کی جگہ ٹیسٹ ٹیم کی قیادت بھی سنبھالیں۔
اِس کے ساتھ نوجوان کھلاڑی مثلاً عماد وسیم کو ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی کے لیے تیار کیا جائے۔ وہ کھلاڑی جو اچھا یا برا، اپنا وقت گزار چکے ہیں ان سے نجات حاصل کی جائے جن میں سرفہرست محمد حفیظ ہیں۔
احمد شہزاد، عمر اکمل، عمر گل، شعیب ملک، شاہد آفریدی کو بھی اب خدا حافظ کہا جائے۔ اظہر علی کو بطور ایک کھلاڑی کے ٹیسٹ کرکٹ تک محدود رکھا جائے۔ حقیقی معنوں میں ایک نئی ٹیم ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کپتان کے سپرد کی جائے کیونکہ اوپر درج ناموں میں سے اگر ایک بھی ٹیم میں ہو گا تو وہ مستقل بگاڑ کا باعث رہے گا۔
پاکستان کرکٹ میں ٹیلنٹ کی بالکل کمی نہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ انضمام الحق کا تعلق چونکہ ماضی قریب کی کرکٹ سے ہے تو یقیناً وہ آج کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹیم کا انتخاب کریں گے۔
شرجیل خان، بابراعظم، نعمان انور، محمد رضوان، مختار احمد، حسن علی، ضیاالحق، محمد نواز، انور علی جیسے قابل نوجوان کھلاڑیوں کے ہوتے ہوئے ہمیں محض ایک اچھے کپتان کی ضرورت ہے جو مصباح الحق کی طرح ہماری ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو پھر سے پٹڑی پر چڑھا سکے۔
بشکریہ ڈان نیوز