مگر پھر شیطان نے میرے دل میں لالچ ڈال دی، میں نے سوچا کہ اگر میں اپنے مشوروں میں مزید جدت پیدا کر لوں تو ملک سے باہر بھی میرا نام بن جائے گا۔ سو، میں نے ایک کریش پروگرام ترتیب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ صف اول کے کالم نگار یاسر پیر زادہ نے تحریر کی الف کی دلچسپ کہانی۔۔۔۔
یاسر پیر زادہ نے اپنے کالم “الف کو کیا سمجھاؤں” میں ایک ایسے انسان کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جو بیروزگاری کی وجہ سے ان کے پاس آتا ہے تاکہ وہ ان کے لیے کسی نوکری کا بندوبست کرے مگر وہ لکھتے ہیں کہ میں نے مشورہ دیا کہ تم مشاورتِ شغلی کا کام کیوں نہیں شروع کر دیتے، اِس پر الف نے غصے سے کہا ’’صاحب میں غریب ضرور ہوں مگر بے غیرت نہیں‘‘۔ اُس کی بات سن کر میں ہنس پڑا اور اسے بتایا کہ مشاورتِ شغلی دراصل ’کیریئر کونسلنگ‘ کا ترجمہ ہے اور یہ وہ کام ہے جس میں پیسے بھی ہیں اور نیک نامی بھی۔ میری بات سن کر الف الجھن میں پڑ گیا، کہنے لگا کہ مجھے اِس کام کا کوئی تجربہ ہے اور نہ اِس سے متعلقہ کوئی ڈگری اور پھر میرا تو اپنا کیریئر خطرے میں ہے،میں نے کہا کہ اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ تم اِس کام کے لیے بالکل موزوں آدمی ہو اور پھر اسے سمجھایا کہ یہ کیریئر کونسلنگ ہے، اِس میں ڈاکٹر کی طرح ایم بی بی ایس کی کوئی ڈگری نہیں چاہیے، بس اپنے نام کے ساتھ کیریئر کونسلر لکھنے سے ہی کام چل جاتا ہے،رہی بات تجربے کی تو میں ابھی کھڑے کھڑے تمہیں دو چار گُر سکھا دیتا ہوں، پھر چل سو چل۔ تھوڑی دیر بحث کے بعد الف میری بات مان گیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ’محنت میں عظمت ہے اور ایمانداری بہترین وصف ہے‘ جیسی فرسودہ اور گھسی پٹی باتوں کا زمانہ نہیں رہا، اب لوگ نئی اور انوکھی باتیں سننا چاہتے ہیں، انہیں شارٹ کٹ چاہیے جس سے وہ راتوں رات امارت اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچ سکیں، کتابی باتیں نوجوانوں کو اپیل نہیں کرتیں، انہیں یہ سننا اچھا لگتاہے کہ کالج سے ڈراپ آؤٹ ہونے کے باوجود لوگ ارب پتی بن جاتے ہیں وغیرہ۔ الف نے میری یہ باتیں نہایت غور سے سنیں اور پلّے سے باندھ لیں اور کہا کہ وہ فوراً یہ کام شروع کر دے گا۔چند دن پہلے الف سے میری دوبارہ ملاقات ہوئی، اِس مرتبہ وہ بہت زیادہ برے حال میں تھا، مجھے لگا جیسے وہ مجھ سے کچھ ناراض ہے، اس کی ناراضی بھانپ کر میں اسے قریبی کیفے میں لے گیا اور سینڈوچ اور کافی کا آرڈر دینے کے بعد پوچھا کہ مشاورتِ شغلی کا کام کیسا جا رہا ہے، الف نے مجھے گھور کر دیکھا اور پھر اپنی داستان ایسے شروع کی جیسے قصہ چہار درویش سنانے لگا ہو۔ ’’صاحب، اُس روز آپ سے ملاقات کرنے کے بعد جب میں گھر واپس آیا تو شیشے میں اپنی شکل دیکھی، ایک سفید بال بھنوؤں میں نظر آیا کہ مانند تار مقیش کے چمک رہا تھا، یہ دیکھ کر میں بھاں بھاں کرکے رونے لگا، اس سے پہلے کہ سب محلے والے اکٹھے ہوتے میں نے موچنے سے بال نکالا اور دل میں سوچا کہ اے الف تیری عمر اب ڈھلنے کو ہے، اب بھی اگر تو نے اپنا کیریئر نہ بنایا تو تُف ہے تیری زندگی پر۔ اگلے روز کیریئر کونسلنگ کا دفتر کرائے پر لیا اور کام شروع کر دیا، شروع شروع میں کوئی بھی نہیں آتا تھا لیکن پھر آپ کے مشورے کے مطابق میں نے کچھ نوجوانوں کو شارٹ کٹ والے مفت مشور ے دیے جو انہیں بہت پسند آئے، انہوں نے خوش ہو کر سوشل میڈیا پر میرے چرچے کر دیے جس سے میرا کام چل نکلا، مگر پھر شیطان نے میرے دل میں لالچ ڈال دی، میں نے سوچا کہ اگر میں اپنے مشوروں میں مزید جدت پیدا کر لوں تو ملک سے باہر بھی میرا نام بن جائے گا۔ سو، میں نے ایک کریش پروگرام ترتیب دیا جس میں کیریئر بنانے کے کچھ ایسے طریقے متعارف کروائے جنہیں اپنانے کی صورت میں ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا، مثلاً میں نے لوگوں کو بتایا کہ اُن کا رول ماڈل ایک ایسا کھرب پتی شخص ہونا چاہیے جو زمینوں پر قبضے کرتا ہو، سرکاری اداروں کو رشوت کے زور پر چلاتا ہو، میڈیا کو اشتہارات دے کر خریدتا ہو اور ٹیکس چوری کرتا ہو مگر ساتھ ہی لوگوں میں اپنی ساکھ قائم رکھنے کے لیے غریبوں کے لیے مفت کھانے کے مراکز بھی کھولتا ہو، بڑی بڑی مساجد تعمیر کرواتا ہو اور اپنی پرہیزگاری کی دلیل یہ دیتا ہو کہ میں اپنی کمائی سے غریبوں کو کھانا کھلاتا ہوں سو اِن غریبوں کی دعاؤں سے میں ترقی کرتا ہوں، ایسے شخص کا کمال یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو زمینوں پر اُس کا قبضہ نظر نہیں آتا مگر غریب کے کھانے کے لیے کھولے گئے مرکز شہر میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں، سو یہ ہے ہمارا آج کا رول ماڈل۔ دوسرا مشورہ میں نے یہ دیا کہ اگر کسی وجہ سے آپ دولت کمانے میں کامیاب نہ ہو سکیں تو کوئی بات نہیں، کسی نیک سیاست دان کی منت سماجت کرکے پولیس میں بھرتی ہو جائیں اور اس کے بعد اپنا رول ماڈل ایسے پولیس افسر کو بنا لیں جو جعلی پولیس مقابلوں کا ماہر ہو، اگر آپ اس کے نقش قدم پر چلیں گے تو اس ملک میں کوئی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا، پورے رعب داب سے نوکری کریں گے، عزت سے ریٹائر ہوں گے، اربوں کی جائیداد ہوگی، دریائے سندھ چین ہی چین لکھے گا۔ یہاں تک تو شاید سب ٹھیک تھا مگر پھر ایک دن میں نے کسی کیریئر کونسلنگ سیشن میں ایسا مشورہ دے دیا جو کچھ زیادہ ہی انقلابی تھا۔ میں نے کہا کہ وہ نوجوان جو دولت بھی نہیں کما سکتے اور کسی کی سفارش انہیں پولیس میں بھی بھرتی نہیں کروا سکتی تو ان کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی دہشت گرد تنظیم کے پبلک ریلیشننگ افسر یعنی ترجمان بن جائیں، اِس میں سہولت یہ ہے کہ کسی قسم کی سفارش یا ڈگری کی ضرورت نہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کام بھی کوئی نہیں، بس جب بھی کوئی بم دھماکا ہو تو ایک بیان جاری کرکے اس کی ذمہ داری قبول کرنا پڑتی ہے، یہ ایسی جاب ہے جس میں کیریئر ہر طرح سے محفوظ ہے، تنظیم ختم بھی ہو جائے تو ترجمان کو آبرو مندانہ طریقے سے ہی رکھا جاتا ہے بلکہ بعض صورتو ں میں تو اسے
post retirement benefits
بھی دیے جاتے ہیں… اگلے روز میرے دفتر پر چھاپہ پڑا، مجھ پر ایف آئی آر درج ہو گئی اور کئی ہفتوں تک جیل کی ہوا کھانا پڑی، کل ہی ضمانت پر رہا ہوا ہوں اور آج آپ مل گئے، اب خود ہی بتائیں میں نے کون سی غلط بات کی؟‘‘ پوری روداد سننے کے بعد میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور دل میں کہاکہ الف کو میں اب کیا سمجھاؤں کہ کیا غلط کہا اور کیا درست!