تحریر: حفیظ خٹک
حالیہ یوحنا آباد کے سانحے کے بعد جس انداز میں مسیحی برادری کے اندر موجود شرپسندوں نے دشمنوں کے مذموم مقاصد کو پورا کر نے کیلئے خدمات سرانجام دیں، جو تخریبی کاروائیاں کی گئیں وہ نہایت قابل تشویش ہیں۔ اس بار دشمن بڑی گہری چال چل گیا اسکا وار ٹھیک نشانے پر لگا۔ وہ پہلے شیعوں کو سنیوں سے لڑانے کی بڑی کاوشیں کر چکا اس میں ناکامی کو دیکھتے ہوئے اس بار اس نے عیسائیوں کو مسلمانوں سے لڑانے کیلئے بڑی منظم منصوبہ بندی کی۔ احتجاج کی آڑ میں جس طرح مخص شعبہ کی بنیاد پر دو مسلمانوں کو زندہ جلایاان کی لاشوں کی بے حرمتی کی، اس کے بعد لاہور میں جس طرح کی کاروائیاں کی گئیں اس نے اہل حس، و اہل اقتدار کو اور ہر اس پاکستانی کو جو اس ملک سے محبت کرتا ہے، بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
گرجاگھروں میں خودکش دھماکے گئے وہ نہایت قابل مذمت ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دو مسلمانوں کو جس انداز میں جلایا گیا ان کی سوختہ لاشوں کو جس انداز میں گھسیٹا گیا جو بے حرمتی کی گئی اس کے حوالے سے تو الفاط ہی نہیں جن کے ذریعے جذبات کی عکاسی و ترجمانی کی جاسکے۔ حادثے سے بڑھ کر سانخہ یہ ہوا کہ لوگ حادثے کو دیکھ کر رکے نہیں۔۔۔ اسی روز اور اس کے بعد بھی شہر قائد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مسیحی برادی نے جس انداز میں اپنا اختجاج ریکارڈ کرایااس نے بہت سوں کی نیندیں اڑا دیں ہیں۔ جس جگہ بھی عیسائیوں کی بستیاں تھیں وہاں سے مشتعل افراد قافلوں کی صورت نکلے اور سامنے آنے والے لوگوں کو یہ دیکھے بغیر کہ وہ عورت ہے، بچہ ہے ، بزرگ سبھی پر تشدد کیا ان کی املاک کو نقصان پہنچایا ، اس انداز میں مظلوموں پر اپناغصہ اتارا کہ جیسے خودکش دھماکے انہی لوگوں نے کرائے ہوں۔ ان مظالم کو سہنے والے لوگوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ آخر ہوا کیا ہے بالکل اسی طرح جس طرح ان دو افراد کو معلوم نہ تھا۔
گذشتہ دنوں ایک شامی پائلٹ کو داعش نے پنجرے میں زندہ جلادیا تھا اس پر دنیا بھرکی انسانی حقوق کی تنظیمیں چراغ پا ہوگئیں ، دنیا بھر میں اس اقدام کی مذمت کی گئی۔ہونا بھی یہی چاہئے تھا ، اسلام کسی انسان کو اس طرح جلانے کی اجازت نہیں دیتا، لہذا جنہوں نے بھی وہ قدم اٹھایا غلط تھا ۔ لیکن یہاں ان دومعصوم کے ساتھ ہونے والے واقعے پر کوئی اختجاج ، کوئی مظاہرہ ، کوئی مذمتی بیان ، کیوں نہیں آیا؟ چرچ پر حملہ آور تو آئے ہی خود کو اڑانے کیلئے تھے لیکن یہ جو دو افراد تھے انہیں تو ایسے لوگوں نے مارا جو اس حد تک ہوش میں تھے کہ جلانے کی ویڈیو بنا سکتے تھے اس قدم کے بعد وکٹری کا نشان بنانا جانتے تھے۔ان کے اس انسانیت سوز حرکت پر کیوں خاموشی طاری رکھی گئی ۔ آخر کیوں ؟ کیا ان دو افراد اور چرچ میں مارے جانے والے افراد کا خون ایک رنگ کا نہیں تھا ، کیا ان کے ہاتھ ،پائوں ، جسم کسی اور طرح کا تھا؟ کیا ان کی خبر پر بین کرنے والی ان کی مائیں ، بہنیں اور دیگر رشتہ داروں کے آنسو کسی اور رنگ کے تھے ؟بتایاجائے کہ یہ کیوں کیا گیا ، کس نے اور کس کے ایما پر ایسا کیا گیا؟ یہ اور ایسے ہی ان گنت سوالات اٹھتے ہیں اور جواب کی تلاش میں خلا کے اندر ہی گھل جاتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک مسیحی دوست کو خون کی ضرورت پڑی تو اپنا اور چند دیگر دوستوں کا خون اسے پیش کیا گیا ، جس کے بعد وہ روبہ صحت ہوئے۔ سانحہ یوحنا آباد پر اس مسیحی دوست سے تعزیت کی اس کے ساتھ ہی ان دو مسلمانوں کے حوالے سے موقف جاننا چاہا تو اس کی زبان سے ایک لفظ تک نہیں نکل سکا ، درد اور کرب سے اس کی آنکھ سے چند آنسو تھے جو گرئے ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندہ سمیت پورے ملک میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے اک سیاہ باب کی صورت میں یاد رکھا جائیگا۔ لیکن یہ جو ہوا اس کو کیا کہیں گے اس کو کس نام سے یاد رکھیں گے؟ کون ہے اس کا ذمہ دار ؟ اس کا ذمہ دار اس ملک کا حکمران ہے ، اس کا ذمہ دار اس صوبے کا حکمران ہے۔ اگر انہوں نے اس مسیحی جوڑے کو زندہ بھٹی میں جلانے والوں کو سر عام لٹکایا ہوتا ، انہیں جلایا ہوتا ، ایسا نہ بھی کیا ہوتا کم از کم ان مظلوموں کو انصاف ہی فراہم کیا گیا ہوتا تو شاید شاید ایسا نہ ہوتا۔ خودکش حملہ آور کو روکنا ایک الگ معاملہ ہے وہ تو آتا ہی خود کو مارنے کیلئے ، لیکن ایسے بے گناہوں کو تو بچایا جاسکتا ہے۔اس ملک کے ، اس صوبے کے حکمران جو کہ دونوں بھائی ہیں اور اک طویل عرصے سے حکومت کرتے آئے ہیں ، انہوں نے لاہور کو تو اپنے تئیں ترقی کی راہ پر گامزن کردیا ہے لیکن انصاف وہاں کے عوام سے بہت دور ہے۔ گذشتہ برس طاہر القادری کے حامیوں پر جس انداز میں پولیس گردی کی گئی جس کے نتیجے میں ایک درجن سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ان کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہوتا ، تحریک انصاف کے اسلام آباد دھرنے میں اسی پولیس گردی کے عمل کو جس انداز میں دہرایا گیا ایک بار پھر مظلوموں کو انصاف مہیا نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ سیالکوٹ سانخے میں کہ جب مسلمانوں نے ہی دو خافظ قرآن بھائیوں کو تشدد کر کے جان سے مردیا تھا اگر اس کے ذمہ داروں کو بھی پکڑا جاتا تو شاید یہ نہ ہوتا۔ پتہ نہیں ان حکمرانوں اور خلفائے راشدین کے اسلام میں کوئی فرق ہے یا ان حکمرانوں پر وہ اصول و ضوابط لاگو نہیں ہوتے۔ وہ خلیفہ دوم خضرت عمر فاروق جو یہ کہا کرتا تھا کہ دریائے دجلہ کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو جواب عمر سے لیا جائے گا ۔ یہ احساس انہیں بے چیں کئے رہتا تھا ۔ کیا ان حکمرانوں کا یا اس وقت امت مسلمہ کے حکمرانوں کے ان سے موازنہ کیا جاسکتا ہے ، نہیں قطعی نہیں، یہ حکمران تو ان کے جوتوں کی خاک بھی نہیں۔
ان میں احساس نام کی کوئی چیز نہیں۔ اس ملک کے حکمرانوں کا عالم تو یہ ہے کہ اس قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو مخص پانچ ہزار ڈالر کے عیوض امریکہ کو بیچ دیتا ہے اور اپنے اس اقدام پر تحسین حاصل کرنے کیلئے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس جو دن دہاڑے تین افراد کو قتل کرتا ہے اسے پروٹوکول کے ساتھ ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ کیوں ، آخر کیوں ؟ کہاں ہیں وہ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں ، کہاں ہیںوہ سیاسی ، سماجی اور مذہبی جماعتیں ، کہاں ہیں وہ زرد آری اور اس کا وہ بلاول بھٹو ، کہاں ہیں وہ تحریک انصاف کا چیمپئن عمران خان ، وہ ڈاکٹر طاہر القادری، کہاں ہے وہ غریب پرور قائد سراج الحق، وہ بابائے سیاست مولانا فضل الرحمان ، اور ان سب کے علاوہ کہاں وہ مظلوموں کا قائد الطاف حسین، جو خود کو مظلوموں کا قائد کہتا ہے، کہاں ہیں یہ سب ، زندہ بھی ہیں یہ لوگ یا مر چکے ہیں ان سبھی کے ضمیر ۔ ۔۔ ان حالات کے ذمہ دار جہاں تک اس ملک کے حکمران ہیں ، وہیں اس ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔ اس ملک کی مذہبی ، سماجی جماعتیں بھی ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر اس ملک کی اٹھارہ کڑور عوام ہے وہ سب جو خود کو زندہ سمجھتے ہیں۔ سانحہ یوحنا آباد اور اس پہلے جتنے بھی سانخے ہوئے ان سبھی سمیت ان دو جوانوں کو زندہ جلائے جانے کا مقدمہ آج تمام پاکستانیوں کے خلاف درج ہونا چاہئے ۔ یہی ہیں ان حالات کے ذمہ دار یہ خود کو بدلنا نہیں چاہتے، اور خدا تو اس وقت تک کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود سے اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتی۔ لہٰذا ہماری قوم کو آج اگرا ن حالات سے نکلنا ہے تو اس کے لئے انفرادی اور مجموعی طور پر خود کو بدلنا ہوگا۔ درد خواہ کسی کا بھی ہو اسے محسوس کرنا ہوگا ، اس حساس کے بعد عمل کرنا ہوگا اس کے بعد یقینا دشمن اور ان کی تمام چالیں اپنی موت آپ مر جائیںگی ان شاء اللہ۔
تحریر: حفیظ خٹک
hafeezkhatak95@gmail.com