اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں راﺅ انوار کی ای سی ایل میں نام ڈالنے کیخلاف نظرثانی درخواست کی سماعت ہوئی، عدالت نے نظر درخواست درخواست عدالتی فیصلے کے ساتھ دوبارہ دائر کرنے کا حکم دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق سابق ایس ایس پی ملیراور نقیب قتل کیس کے ملزم راﺅ انوار کی ای سی ایل میں نام ڈالنے کیخلاف نظرثانی درخواست کی سماعت ہوئی، جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی،وکیل راﺅ انوار ملک نعیم اقبال نے کہا کہ عدالت نے نقیب اللہ کے قتل کا نوٹس لیا تھا،راﺅ انوارعدالت میں پیش ہوئے تھے عدالت نے ضمانت دی تھی ،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ای سی اےل سے نام نکلوانے کا ایک طریقہ ہے ،آپ کہتے ہیں کہ ضمانت پر ہیں تو نام ای سی ایل سے بھی نکالاجائے ،آپ پولیس افسر ہیں توبیرون ملک کیوں جانا چاہتے ہیں،کیا بیرون ملک آپ کا کاروبار ہے ؟وکیل راﺅ انوار نے کہا کہ فیملی سے ملنے کیلئے جانا ہے ،پرویز مشرف کیس کی مثال آپ کے سامنے ہے ،عدالت نے کہا کہ کیا راﺅ انوار پر کوئی اور ایف آئی آر یا انکوائری چل رہی ہے،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ راﺅ انوار کے خلاف نیب میں اثاثوں سے متعلق انکوائری ہے،عدالت نے کہا کہ اس نوعیت کے تو بہت سے کیسز ہیں ہم اس کیس کو نہیں دیکھ رہے ۔
عدالت نے نظرثانی درخواست عدالتی فیصلے کیساتھ دوبارہ دائر کرنے کا حکم دیدیا،جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ای سے ایل سے نام نکلوانے کا ایک طریقہ ہے،عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔اس سے قبل یہ خبر آئی تھی کہ سپریم کورٹ کے حکم پر راﺅ انوار کی حفاظتی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے نقیب اللہ قتل کیس میں 5رکنی جے آئی ٹی تشکیل دیدی گئی۔ اور سابق ایس ایس پی کو کراچی منتقل کرنے اور آئی جی سندھ کو ملزم کی سکیورٹی یقینی بنانے کی ہدایت کردی گئی۔
نئی جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب احمد پٹھان تھے جبکہ سپریم کورٹ نے رائو انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا بھی حکم دیدیا تھا۔ ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ ولی اللہ اور ڈی آئی جی ساؤتھ آزاد احمد خان،ذوالفقار لاڑک اور ایس ایس پی سنٹرل ڈاکٹر رضوان بھی جے آئی ٹی میں شامل تھے۔ذرائع کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راﺅ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے راﺅ انوار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو بہت دلیر تھے،اب بھاگتے پھر رہے ہیں ،ہمیں خط لکھتے رہے ہیں، پیش کیوں نہیں ہوئے۔ راﺅ انوار نے عدالت میں بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ میری زندگی کوخطرات تھے،عدالت کے سامنے خود کو سرنڈ ر کرتا ہوں، اس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ سرنڈرکرکے عدالت پراحسان نہیں کیا۔
راﺅ انوار کے وکیل نے کہا کہ ہمیں حفاظتی ضمانت دے دیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ضمانت نہیں دے رہے،راﺅانواز کو گرفتار کریں جبکہ چیف جسٹس نے راﺅ انوار کے بینک اکاﺅنٹس کھولنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بینک اکاﺅنٹس کھول دیں تا کہ راﺅ انوار کے بچوں کی روزی روٹی کھل سکے،جو تنخواہ جاتی تھی وہ بھی ملنی چاہیے۔وکیل راﺅ انوار کے وکیل نے پرانی جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے استدعا کی کہ آئی ایس آئی، آئی بی کو بھی جے آئی ٹی میں شامل کیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قتل کے مقدمے میں ایجنسیوں کا کیا کام، ہم خود دیکھ لیں گے،آپس میں مشورہ کرکے آتے ہیں، یہ نہ سمجھیے گا ہم کسی سے پوچھنے جارہے ہیں،عدالت مکمل طور پر آزاد ہے، ہمیں کسی سے مشورے کی ضرورت نہیں۔ یاد رہے کہ راﺅ انور کو سپریم کورٹ میں طلب کیا گیا تھا جس کے بعد سابق ایس ایس پی عدالت میں پیش ہوئے۔