تحریر: شاز ملک فرانس
دنیا میں جب انسان اپنی پہلی سانس لیتا ہے تو قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ احساس میں کہیں نہ کہیں اسکے شعور میں یہ آگاہی دل کی دھڑکنوں اور سانسوں کی روانی میں ہوتی ہے کے وہ ایک انجانی دنیا میں قدم رکھ چکا ہے جہاں قدرت کے متیّن کردہ زاویے کے تحت اسے زندگی گزارنی ہے اور اپنی زندگی کو انہی ضابطوں کے سانچے میں ڈھالنا ہے
قدرت نے زمین پر بے شمار مخلوق پیدا کی مگر افضل مخلوق انسان کو قرار دے کر اسے شعور آگاہی عقل فہم و فراست دے کر سب مخلوقات پر برتر و ازل کر دیا اس بشر کو دو روپ دے دیے مرد و عورت حضرت آدم کی تخلیق اس بات کی افضل گواہی ہے کے الله رب العزت نے مرد کو افضل اور اولین تخلیق کیا ہے
مگر حضرت آدمؑ کی تنہائی کو دور کرنے کے لئے حضرت حواؑکی تخلیق اس بات کا بھی احسن ثبوت ہے کے مرد و عورت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، پھر جب جنت سے نکلے جانے کے بعد زمین پر انسانوں کی پیدائش کے سلسلے کو الله رب العزت نے ایک مخصوص مدت کے لئے ازل قرار دے کر حلال نکاح کے طریق کو رائج کیا تو زمین پر مرد و زن کی افزائش ہوتی چلی گی یہاں ایک مخلوق کا ذکر بھی ضروری ہے جسے ابلیس ملعون یعنی شیطان کہا جاتا ہے جو حضرت آدم ؑو حواؑکے علاوہ تھا مگر مٹی سے بنی مخلوق نہ تھا بلکے آگ سے بنا جن شیطان تھا جو راندہ ِ بارگاہ الہی تھا زمین پر یہ تین نفوس پھینکے گئے شیطان ان دونوں کا مشترکہ دشمن تھا ازل سے لے کر ابد تک شیطان نسل انسانی خوا وہ مرد ہوں یا عورت انکا ازلی دشمن ہے
الله نے انسانی رشتوں میں توازن قائم کرتے ہیے جوڑے تخلیق کیے جن میں ایک عورت اور مرد کے نکاح کے بعد افزائش ِ نسل ا انسانی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے مرد و عورت کے مشترکہ دشمن شیطان نے بے شمار برایئوں میں انسانوں کو بہکاتے ہوئے ہلاک کیا یہ ہلاکتیں آج بھی جاری ہیں اور روز محشر تک ہوتی رہیں گیں ٬ مرد و زن کے درمیان نفرّت غلط فہمی اور انکے پاکیزہ نکاحی تعلق کو ختم کرنے کے لئے شیطان اور اسکے چیلے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں ٬ تاکے انکو بہکا کر انکے باہمی تعلق و ربط کو ختم کر کے ان میں نفرتوں کی دیوار وآڑ بنا دی جائے ٬ یہی وجہ ہے کے آج کل کے دجالی دور میں جہاں ہر شخص انتشار و بے چینی کا شکار ہے
وہاں رشتوں میں خودغرضیاں مادہ پرستی طمع حسد لالچ نفرت شر انگیزی عروج پر ہے وہیں طلاقوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گی ہے ٬ رشتوں میں توازن نہیں رہا بلکے رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، شادی شدہ زندگی میں برداشت صبر و تحمل صرف ایک انسان کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ دونوں اصناف اپنے حوصلے برداشت اور ظرف کو جانچتے ہویے نبھا کے طریق کو اپناتے ہیں ٬ یہ لہر ہماری امت ا مسلمہ کو طرف خطرناک حد تک اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ٬ شر انگیزی عروج پر جا چکی ہے مغربی دنیا میں رہنا اور اسکی اب و ہوا سے بہت کم لوگ خود کو بچا پاتے ہیں یہی وجہ ہے کے یہاں بسنے والے مختلف لوگ خاص کر مرد حضرت بہت سی اخلاقی برایئوں کا شکار ہو جاتے ہیں
اپنے احساس و شعور میں مغربیت کو رچا کر اخلاقیات سے دور ہو جاتے ہیں جسکی وجہ سے ہمارے مسلم پاکستانی کلچر میں مغربی معاشرے میں رہتے ہیں گھریلو ماحول میں گراوٹ بے سکونی انتشار اس قدر بڑھ جاتا ہے کے خاتون خانہ کا حوصلہ جواب دے جاتا ہے
نتیجہ پھر یہ انتشار علیحدگی پر جا کر ختم ہوتا ہے مگر اس عالم میں آنا کی جنگ میں شیطان انکو جھونک کر ایک پوری نسل کو خراب کر دیتا ہے الله کے بابرکت نام سے شروع ہونے والا رشتہ تال پر جا کر ختم ہوتا ہے اور بچے ماؤں سے اور باپوں کی شفقت سے محروم ہو کر مغرب زدہ معاشرے میں بٹ جاتے ہیں کبھی ماں کی طرف تو کبھی باپ کی طرف تو کبھی اس کلچر کی طرف جس میں مادر پدر آزادی نمایاں ہے مرد و عورت اپنی آنا کی بقا کی جنگ میں اولاد کو داؤ پر لگا دیتے ہیں اور پھر ایسے اذیت پسند مختلف نفسیاتی مسائل سامنے آتے ہیں جسکے بارے میں ہم تصور نہیں کر سکتے، گھر کے گھر تباہ ہو کر بکھر رہے ہیں ، قصور کسی کا بھی ہو مگر ان بچو ں کا کیا قصور ہے؟ جنکو اس دنیا میں لانے کا زمہ دار عورت و مرد ٹھہرتے ہیں کیوں وہ ان بچوں سے انکے لئے انکے ہونے کا تصور چھین لیتے ہیں
کیوں انکو جیتے جی انا کی آگ میں جھونک دیتے ہیں ، پھر ٹوٹے ہوئی فمیلی کے یہ بچے احساس کمتری کا شکار ہو کر نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو تے ہیں اور اسکا خمیازہ آنے والی کی نسلیں متاثر ہوتی ہیں ٬ رب تعالیٰ نے اولاد کی بیڑی اسی لئے رکھی ہے کے مرد و عورت اس سے بندھ کر شادی جیسے بندھن کو صبر برداشت اور ایثار کے سہارے برباد ہونے سے بچا سکیں مگر افسوس صد افسوس کے مرد و زن اس رشتے کو غصے آنا کی بھینٹ چڑھا کر طلاق دینے اور لینے کے عمل سے گزرتے ہیں اور ایک بیمار ذہن کی اذیت پسند نسل کو فروغ دے رہے ہیں ، دل سے دعا ہے کے کبھی کسی کا دل اور گھر نہ اجڑے الله ہم سب کو سوچنے سمجھنےاور صبرکی طاقت نصیب فرماہیں آمین ثمہ آمین
تحریر: شاز ملک فرانس