امریکا نے شام میں فائر بندی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے روس کو راضی کرنے کی اپنی تمام تر کوششیں ترک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واشنگٹن اور ماسکو فائر بندی معاہدے کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جان کربی نے دو طرفہ مذاکرات معطّل کرنے کااعلان کرتے ہوئے کہا،’’ہم نے پوری کوشش کی کہ روس کو ساتھ ملا کر خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں امن کے قیام کو ممکن بنایا جائے۔ لیکن روس نے اس تناظر میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا۔ یہ ہمارے لیے کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا کہ بات چیت کو روک دیا جائے۔‘‘
امریکا کا مؤقف ہے کہ روس فائر بندی کے لیے اپنے حلیف شامی صدر بشارالاسد پر اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کر رہا بلکہ اسد کو حلب کے شہری علاقوں پر بمباری کی ترغیب دے رہا ہے۔ جان کربی نے مزید کہا کہ اس کے باوجود دونوں ممالک کی افواج کے مابین پیغام رسانی یا معلومات کا تبادلہ پہلے کی طرح جاری رہے گا تاکہ فوجیں ایک دوسرے کے راستے میں نہ آئیں اور کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔
دوسری جانب روس نے مذاکرات کی ناکامی کی تمام تر ذمہ داری امریکا پر عائد کی ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ ساخارووا کے بقول واشنگٹن حکام نے ستمبر میں طے پانے والے فائر بندی معاہدے کی پاسداری نہیں کی، ’’ امریکیوں کی بے عملی یا کاہلی کی وجہ سے جنگجو دوبارہ منظم ہوئے، اسلحہ حاصل کیا اور اپنے وسائل کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوئے۔‘‘ ساخارووا نے مزید کہا کہ امریکی اب اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا رہے ہیں۔
ستمبر میں عید الاضحی کے موقع پر طے پانے والا فائر بندی معاہدہ کچھ ہی دنوں کے بعد ناکام ہو گیا تھا۔ اس کے بعد سے خاص طور پر حلب میں گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں پر شامی دستوں اور روس کی جانب سے2011ء میں شروع ہونے والے اس تنازعے کے بعد سے اب تک کی شدید ترین شدید بمباری کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے شام اسٹیفان دے مِستورا نے اس پیش رفت پر افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اقوام متحدہ انسانی بحران کی شکار شامی عوام تک امداد پہنچانے کے لیے اپنی پوری کوشش کرتی رہے گی۔‘‘ ا ن کے بقول اقوام متحدہ کی جانب سے شامی تنازعے کے سیاسی حل کی تلاش بھی جاری رہے گی۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ایرنسٹ کے مطابق اب کوئی ایسا موضوع باقی نہیں بچا ہے، جس پر امریکا اور روس بات کر سکتے ہوں۔