تحریر: ملک نذیر اعوان
نثار تیری چہل پہل پہ ہزاروں عیدیں اے ربیع لاول
سوائے ابلیس کے جہاںمیں تو سبھی خوشیاں منا رہے ہیں
آج سے تقریباََ سوا چودہ سو سال پہلے تمام دنیا پر ظلم و جبر اور جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اہل عرب بتوں کی پوجا کرتے تھے ۔ اور یہ لوگ آگ اور درخت کی بھی پوجا کرتے تھے ۔ کچھ لوگ ستاروں کی پوجا کرتے تھے لیکن بت پرستی کا رواج عام تھا ۔ اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی مورتیوں کو اپنا معبود سمجھتے تھے ۔ اور انہی سے مدد مانگتے تھے ان کا مذہب بتوں کی پوجا اور کمزور بے بس لوگو ں پر ظلم کرنا تھا ۔ اہل عرب میں ہرقسم کی برائی موجود تھی۔ عرب میں زیادہ تر لوگ خانہ بدوشی زندگی بسر کرتے تھے ۔ لوگوں کا آپس میں کوئی میل ملاپ نہیں تھا ۔ دورِ جہالت میں عورت کی کو ئی قیمت نہ تھی اور اسے اپنی زندگی گزارنے کا کوئی اختیار نہیں تھا ۔ جیسے کوئی بھیڑ یا بکری پالنے والا جب چاہے اسے باندھ دے جب چاہے اسے فروخت کر دے ۔ اور جب چاہے اسے زندہ دفن کردے عورت دورِ جہالت میں عرب اور یونانی معاشرے کا مظلوم طبقہ تھی۔ ایک مرد جتنی عورتوں سے چاہے شادی کر لیتا تھااور نہ ہی باقاعدہ کوئی حکومت تھی۔یعنی ضابطہ حیات بالکل ادھوری تھی ۔ طاقت کا رواج تھا۔ مظلوم کی دار رسی کرنے والا کوئی نہ تھا ۔
اور خاص کر عورتوں کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔۔ اور جانوروں کی طرح سر عام عورتوں کو منڈیوں میں فروخت کیا جاتا تھا ۔ شراب نوشی عام تھی ۔ زیادہ تر لوگ لڑائی جھگڑوں میں محو رہتے تھے۔ عرب میں زیادہ تر لوگ حضرت اسماعیل کی دعوت و مبلع کے نتیجے میںوبنِ ابراھیمی کے پیروکار تھے ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے خدائی درس و نصحیت کو بھی بھلا دیا اور ایک موقع پر ان کے سردار نے شام کا سفر کیا تو وہاں پر بتوں کی پوجا کو دیکھا تو متاثر ہو کر واپسی پر ہیبت نامی بت لے آیا اور اسے لا کر خانہ کعبہ میں نصب کر دیا ۔ عرب میں بت پرستی کا رواج عام تھا اس کے بعد طاقت میں لات نامی بت تھا۔ اور پھر وادی نحلہ میں غزیٰ نامی بت تھا ۔ یہ بت عرب کے بڑے بت تھے ۔ اس کے بعد عرب کے ہر خطے میں بتوں کی بھر مارہو گئی۔ اور جب حج کا زمانہ آتا تو ان بتوں کو مختلف قبائل میںتقسیم کیا جاتا اس سے ہر قبیلے اورگھرمیں ایک ایک بت رکھ دیا جاتا تھا۔ اور مشرکین نے خانہ کعبہ میں بت رکھ دیے ۔
ملک نذیراعوان عہدِ حاضر کی کہانی اور ان بتوں کے علاوہ اہل عرب اساف اور نائلہ کی بھی پوجا کرتے تھے یہ بھی دونوں پتھر تھے اساف اور نائلہ دونوں یمن کے رہنے والے تھے یہ حج کے لئے آئے تھے لیکن انھوں نے جب دیکھا کہ خانہ کعبہ میں کوئی موجود نہیں تو انھوں نے خانہ کعبہ میں بد کاری شروع کر دی ۔ تو انھیں خانہ کعبہ کی بے حرمتی پر اللہ پاک نے ان دونوں کو پتھر بنا دیا تو جب لوگ دوبارہ حج کے لئے آئے تو لوگوں نے ان کو باہر پھینک دیا ۔ یہ بھی ان 360 بتوں میں شامل تھے ۔ جن کی اہل عرب پوجا کرتے تھے ۔ غرض شرک اور بُت پرستی زمانہ جاہلیت دین کا سب سے بڑا مظہر بن گئی۔
اہل عرب میں ہر قسم کی برائی عروج پر تھی۔ لیکن اللہ پاک کا فیصلہ بڑا اٹل ہے اور شروع سے خالقِ قائنات کا یہ اصول رہا کہ جب انسانوں کی حالت آخری حدوں تک پہنچ جاتی ہے تو قادِ رِ مطلق اپنے بر گزیدہ اور نیک بندوں کومبعوث فرماتا ہے ۔تو آخر کار اللہ پاک نے ان تمام برائیوں کا قلع قمع کرنے کے لیئے خالقِ قائنات نے ایل عرب کی زمین کو شرف بخشا اور رب کعبہ نے دو جہاں کے دولہا شہنشاہ کونین حبیب خدا سرور کائنات ۔تاجدارِ مدینہ میرے آور آپ کے آقا جناب حضرت محمدۖ کو اپنا آخری رسول ۖ بنا کر بھیجوایا۔ اور جب اس پاک سر زمین میں حضور سرور کائنات آقا دو جہاں ۖ رحمتِ مجسم بن کر تشریف لائے ۔ انوار کی بارش ہوئی ۔
تمام کائنات پر بہار چھا گئی۔ اور حضرت آمنہفرماتی ہیں کہ جب حضور پر نور آقا دو جہان ۖ کی ولادت باسعادت ہوئی تو یہاں پرنور ہی نور تھا۔ اور اس نور کی وجہ سے مجھے شام کے محلات نظر آنے لگے۔ اور آپۖ کے تشریف لانے سے اہل عرب کی آنکھیں کھل گیئں ۔ تاریکی و خزاں کا دور ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا ۔ اس ماہِ ربیع الااول کا سب سے زیادہ اور بزرگ شرف یہ ہے ۔ کہ آقا ئے دو جہاں ۖ اس ماہِ ربیع الاول میں اپنے قدوم ومیمنت لزوم سے اس خاکدان عالم کو شرف فرمایا جس کے ظہور کے سبب تمام جہاں پیدارکئے گئے اور آپ ۖ کی امتِ حیزا امتہِِ کے شرف سے ممتاز فرمائی گئی ۔ اور اس ماہِ ربیع الاول میں آپۖلقائے الہی کی طرف متوجہ ہوے اوریہ شرف سب مہینوں پر سبقت لے گیا۔
اس سارے مہینے میں بالعموم اور بارہ ربیع الوال کو بالخصوص تمام مماک کے باذوق صہح العقیدہ مسلما ن میلادالنبی ۖ اور میلاد مصطفے ۖ کی تقریبِ سعید مناتے ہیںقریہ قریہ جلوس نکالے جاتے ہیں ہر جگہ پر محافل منائی جاتی ہیں اور ہر جگہ طعام وشیرینی کا اہتمام کیا جاتا ہے گلیوں اور بازاورں کو خوب سجایا جاتا ہے اور بار گاہِ رسالتِ ماب میں عقیدت کے اجاگر کرنے سے محبت ونیاز مندی کا اظہار کیا جاتا ہے تاریخ کے صفحات پر نظر ڈالیں تو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ہمارے پیارے بنی ۖ کی تشریف آوری سے پہلے پوری دنیا کفر کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی اور لوگوں کی مذہبی اخلاقی اورمعاشرتی زندگی موت سے بھی ا بتر تھی ہر طرف کفر ہی چھایا ہوا تھا دیانت ۔شرم و حیا، شرافت ،مخبت اور اخوت کے تقدس کی کوئی حثیت نہیں دی جاتی تھی اور ہر طرف جنگل کا قانون تھا۔ اور جس کی وجہ سے ڈکیتیاں چوریاں اور زنا عروج پر تھا۔ یہاں پر ظلم و ستم کا راج عام تھا ۔اللہ تعالیٰ کی زات و صفات میں غیر اللہ کو شریک ٹھہرانا ان کی سرِ فہرست تھی ۔
چاند ۔سورج ۔آگ اور بت پرستی کا رواج عام تھا ۔ اور اسی بنا پر اہل عرب کی اصلاح اور نجات کے لئے بنی پاک ۖ کو ہی دنیا میںنبی بنا کر بھیجا تا کہ انسانیت کو راہِ راست پر لایا جائے ۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں بھی ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے۔ کہ اے محمد ۖ کہہ دو کہ لوگوں میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا ہوں (یعنی اس کا رسول ۖ ) وہ جو آسمانوں اور زمینوں کا بادشاہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی زندگی بخشتا ہے اوروہی موت دیتا ہے ۔تو خدا پر اور اس کے پیغمبر رسول ۖ پر ایمان لاو۔ جو خدا پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تا کہ ہدایت پاو۔ مسلم شریف کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ میں تمام خلق کی طرف رسول ۖ بنایا گیا اور میراے ساتھ انبیاء ختم کیے گئے ۔ اور پیارے آقا ۖ کی شان کے بارے میں قرآن کریم میں خالق کائنات خود ارشاد فرمارہے ہیں کہ یقینا تمارے رسول ۖ عمدہ نمونہ موجود ہیں۔ حضور پاک کا ارشاد ہے کہ اللہ نے اسماعیل کی اولاد سے کنانہ کو کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو پشند فرمایا اور نبی ہاشم میں سے مجھ کو چُن لیا۔(مشکوةٰ ) اللہ کریم خود نبی پاک ۖ کی شانِ رسالت کے بارے میں قرآن پاک میں فرماتا ہے کہ وہی ہے کہ جس نے اپنے رسول ۖ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اسے ہر دین پر غالب کرے اور اللہ تعالی کافی ہے گواہی دینے والا ۔
اور سورة الفتح آیت نمبر 28میں ایک اور مقام پر فرمایا کہ محمدۖ ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اہل دوزخ کے بارے میںتم سے کچھ پرسش نہیں ہو گی “اور اللہ پاک نے ایک اور مقام پر سورة البقرہ میں آیت 119یہا ں پر آپ ۖ کی بنوت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ آپ ۖ کا کام صرف اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچادینا ہے اب اگر لوگ ایما ن نہیں لاتے اور دوزخ کے مستحق ٹھہرتے ہیں تو اس سلسلہ میں آپ ۖ پر الزام نہیں اور اسی طرح قرآن پاک میں ایک اور جگہ پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے اسی طرح تمیں عادل امت بنایا تا کہ تم لوگوںپر گواہ ہو جائیں جس قبلہ پرتم پہلے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول ۖ کا سچا تابعدار کون ہے۔ اور کو ن ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے گویا یہ تمام مشکل ہے مگر جس اللہ نے ہدایت دی ہے ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے اللہ پاک تمارے اعمال ضائع نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر شفقت اور مہربانی فرمانے والا ہے ( سورة البقرہ ایت نمبر252)۔اخر میں میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ حصور پاک ۖ کی تشریف آوری سے کفر کا اندھیرا ختم ہو گیا۔
آپ ۖ کے آنے سے بہاریں مسکرا پڑی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول کریم ۖ کی تشریف آوری سے دنیا میں جہالت کی تاریکیاں ختم ہو گیئں اور انسان کو اس کی عظمت حقیقی سے آشنائی میسر آئی ۔ اس لحاظ سے ربیع الااول کا مینہ انتائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لئے اپنے گھروں میں محفل میلاد کی خوشیاں مناوْ اور اپنے گھروں کو سجاوْں اور پوری شان و شوکت سے حضور پاک ۖ کی ولادت با سعادت ہم سب کو منانے کی توفیق عطا فرمائے۔حضرت عبدالرحمان بن جوزی فرماتے ہیں کہ جو آدمی پیارے آقا ۖ کی ولادت باسعادت پرایک درہم خرچ کرے گا اللہ پاک اسے دس درہم عطا فرمائے گا۔اور اس کا یہ عمل جہنم اور اس کے درمیان ایک پردہ رہے گا۔آپ روز مرہ کی مثال لے لیں۔ہمارے کسی عزیز کی شادی ہو تو ہم کتنا خرچ کرتے ہیں۔تو ہمیں اپنے آقا ۖ کی آمد پر بھی دل کھول کر خرچ کرنا چاہیئے۔آخر میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے آقا ۖ کی زیادہ سے زیادہ میلاد منانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھرو جھولی میری یا محمد ۖ۔۔لوٹ کر میں نہ جائوں گا خالی۔۔۔۔۔۔اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ملک نذیر اعوان