تحریر : اختر سردار چودھری
عمو مادس سال کے بعد ملک میں افراد کی تعداد کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنا مردم شماری کہلاتا ہے ۔مردم شماری سے معاشی ،تعلیمی،سیاسی ،عمرانی ، منصوبہ بندی میں مدد ملتی ہے ۔اس سے تعلیم کا تناسب اور ملک کی ضروریات کیا ہیں کے علم کے علاوہ شرع خواندگی ملازمت،ہجرت،آبادی میں مردوں اور خواتین کی درست عمر،تعداد،تعلیم کا تعین شامل ہے ۔مردم شماری سے ، کس صوبے کی کتنی آبادی ہے کس ضلع میں کتنی آبادی ہے ، لوگوں کا پیشہ کیا ہے ۔کتنے اسپتال، کتنے دفاتر، سکول ،فیکڑیاں اور کتنے گھر ہیں ان گھروں میں کتنے افراد رہتے ہیں اور ان کی عمریں کیا ہیں ان کی مادری زبان ، تعلیم ،نسل،مذہب یہ بھی معلوم ہوتا ہے ۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی ترقی و تعمیر کا انحصار مردم شماری پر ہے ہم کو اب تک یہ علم نہیں کہ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات میں رہنے والوں کی تعداد کتنی ہے ۔اسی طرح ملک میں مہاجرین کی تعداد کتنی ہے ۔ہمیں تو پاکستان میں کسی خاص امراض کے شکار افراد کی درست تعداد تک کا علم نہیں۔
قبل مسیح میںسلطنت روم(رومن)میں باقاعدہ مردم شماری کے شواہد ملے ہیں جس کا مقصدآبادی میں یکساں وسائل کی تقسیم تھا ۔اس کے علاوہ قدیم تہذیبوںمیں ایران،چین وغیرہ میں مردم شماری کے آثار ملتے ہیں ۔اس کے بعد مسلمانوں میں سب سے پہلے 2ھ میں مدینہ شہر میں مردم شماری کرائی گئی اور کوفہ میں مردم شماری کے کوائف دستیاب ہیں۔مدینہ میں زکوة ،صدقات ،مال غنیمت ،جائیداد وغیرہ کی تقسیم کے لیے 2 ھجری میں مردم شماری کی گئی تھی ۔حضرت عمر فاروق نے 15 ھجری( 640 )میں باقاعدہ مردم شماری کرائی ۔پاکستان میں مردم شماری کے لئے متعلقہ ادارہ کی بنیاد1950 ء میں رکھی گئی اور اس ادارے نے وزارت داخلہ کے تحت مردم شماری کرائیں۔ 1951،1961،1972 اور 1982 کے بعد 1998 میں ہوئی اب پاکستان میں چھٹی مردم شماری 2016 کو ہونے جا رہی ہے ۔تیسری مردم شماری 1971 میں ہونا تھی بھارت سے جنگ کی وجہ سے ایک سال دیر سے ہوئی ،چوتھی مردم شماری اپنے وقت پر یعنی 1982 میں ہوئی۔
اس کے بعد 1991 میں ہونا تھی لیکن اعدادو شمار غلط جمع کرنے کے باعث التوا کا شکار ہوئی ،جیسا کہ ہمارے ملک کے ذمہ دار دیر کرنے میں دیر نہیں کرتے ،دیر ہوتی رہی سیاست دانوں کے اختلاف 17 سال تک مردم شماری کی راہ میں رکاوٹ رہے آخر 1998 میں پانچویں ملک کی اب تک کی آخری مردم شماری ہوئی ۔اس کے بعد 2011 میں لسانی گروہوں کے مابین مسابقت سے دو سرکاری شمارکنندگان کو قتل کر دیا گیا اور اب تک سیاسی اختلاف چھٹی مردم شماری کی راہ میں رکاوٹ چلے آ رہے ہیں ۔اور اب حکومت نے آئندہ سال مارچ سے مردم شماری اور خانہ شماری کروانے کا فیصلہ کیا ہے ۔یہ فیصلہ وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس میں کیا گیا۔ اس بات کا کریڈٹ وزیراعظم نواز شریف کو ہی جاتا ہے اس سے پہلے 1998 میں پانچویں مردم شماری بھی ان کے دور حکومت میں ہوئی تھی ۔اور اب 18 سال بعد مارچ 2016 میں ان کے دور حکومت میں ہی ہونے جا رہی ہے ۔ مردم شماری کا یہ عمل فوج کی نگرانی میں کیا جائے گا۔ذرائع نے بتایا ہے کہ رواں سال ہاؤس لسٹنگ سمیت تمام ہوم ورک مکمل کیا جائیگا جس کے بعدمارچ2016 میں مردم شماری کا آغاز ہوگا۔سنا ہے حکومت نے اس مقصد کے لئے 13ارب روپے بھی مختص کررکھے ہیں۔
مردم شماری کے دوران جن خاندانوں میں ایسے افراد شامل ہونگے جنکی نادرامیں رجسٹریشن نہیں ہوئی یا انھوں نے خود نہیں کروائی انہیں بھی رجسٹرڈ کیا جائیگا۔ اس مقصد کیلیے وفاقی حکومت، وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں کی انتظامیہ کو نادرا کی بھی خدمات فراہم کریگی۔پاکستان میں درست مردم شماری جوئے شیر لانے کے مترادف ہے،پاکستان میں مردم شماری اتنا مشکل کام کیوں ہے ؟ اس کی وجہ ایک لفظ میں بیان کریں تو وہ “سیاست ” ہے ۔کیونکہ آبادی کے تناسب کو سامنے رکھ کر کسی بھی صوبے کو ترقیاتی فنڈ ملتا ہے اس وجہ سے سیاست داں کوئی نہ کوئی تنازعہ کھڑا کر دیتے ہیں ۔ قومی وسائل کی تقسیم حصہ بقدر جثہ کے حساب سے ہوتی ہے ۔جس پر اختلاف ،مخالفت کی طرف لے جاتا ہے۔
گزشتہ انتخابات میں 1998 کی مردم شماری کو سامنے رکھ کر قومی و صوبائی حلقہ بندیاں ترتیب دی گئی تھی ۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حلقہ بندیاں پاکستان کی آبادی کی درست عکاسی نہیں کرتیں اس دوران نہ جانے کتنی آبادی ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مقانی کر گئی ہے۔کتنی آبادی بڑھ گئی ہے ،ہمارے ہاں ہر کام تکے سے کرنے کا رحجان ہے ایسے ہی تکے سے حلقہ بندیاں کی گئیں تھی ۔ ہمارے حلقہ بندیوں میں دیہی علاقوں کو زیادہ جبکہ شہری علاقوں کو کم نمائندگی حاصل ہے،حالانکہ اب شہروں کی طرف نقل مکانی نے اس صورت حال کو بدل کر رکھ دیا ہے لیکن ہمارا پرنالہ گزشتہ انتخابات میں بھی اسی جگہ بہتا رہا ۔یہ ہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن مردم شماری پر زور دیتا رہا ہے ۔لیکن اس کی سنی نہیں گئی سنا ہے اب سنی تو گئی ہے ۔اللہ کرے اب کے ہمارے ملک میں مردم شماری ہو جائے اور اسے سب جماعتیں ،ادارے تسلیم بھی کر لیں ۔اس کی امید کی جا سکتی ہے کیونکہ اب کے مردم شماری فوج کی نگرانی میں ہو رہی ہے۔
ملک کی ترقی کے لیے،وسائل کی تقسیم کے لیے ،منصوبہ بندی اور منصوبہ بندی کے لیے اس بابت علم ہونا کہ ملک کی آبادی ،تعلیم ،صحت،فلاحی بہبود،سماجی بہبود،خوراک کے ادارے کتنے ہیں ،زراعت ،صنعت اور دیگر اداروں سے کتنی آبادی منسلک ہے ،کتنے بے روزگار ہیں ،مختلف عمروں کے کتنے افراد و خواتین ہیں ۔ہمارے لیے یہ صورت حال بھی بڑی خطرناک ہے کہ آبادی بڑھنے کی رفتار وسائل بڑھنے کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے ایک رپورٹ ہے کہ ملکی معیشت کی ترقی کی رفتار دو سے تین فی صد جب کہ ملازمت کے حصول کے متقاضی افراد کی تعداد چھ فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے اور یہ خلا بہت وسیع ہے۔لیکن ملک میں بے روزگاروں کی درست تعداد اس مردم شماری کے بعد ہی علم ہو سکے گا ۔اسی طرح ملک میں خواتین کی تعداد کا درست تناسب اور کام کرنے والی خواتین ،سرکاری محکموں میں خواتین کی تعداد ،غیر سرکاری اداروں میں تعداد ، شہری خواتین ، دیہی خواتین کا تناسب ان کی عمر، تعلیم ، مردم شماری کے ذریعے ہی جمع کیا جا سکتا ہے۔ عوام سے درخواست ہے کہ ملک کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور شمار کنندگان کو درست معلومات فراہم کریں
تحریر : اختر سردار چودھری