counter easy hit

مردم شماری میں معذور افراد کو بھی شمار کریں

ملک کی آبادی کا تخمینہ لگانے اور کْل آبادی کے مطابق معاشی پالیسیاں ترتیب دینے کے لیے مردم شماری کا انعقاد بہت ضروری ہے۔ پاکستان

Special Child

Special Child

میں اب تک پانچ بار مردم شماری کا انعقاد ہو چکا ہے۔ پہلی مردم شماری 1951، دوسری 1961، تیسری 1972، چوتھی 1981 اور پانچویں مردم شماری 1998 میں ہوئی اور اب تقریباََ 19 سال بعد مارچ 2017 میں چھٹی مردم شماری کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جس طرح معذور افراد کا ہر سطح پر معاشی اور معاشرتی استحصال جاری ہے، حالیہ مردم شماری میں بھی انہیں بری طرح نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ مردم شماری کے موجودہ فارم 2 میں معذور افراد کے بارے میں معلومات کے اندراج کا خانہ سرے سے غائب ہے۔

موجودہ مردم شماری میں دو فارم شامل کیے گئے ہیں۔ فارم 2 تمام گھرانوں سے پُر کروایا جائے گا، جس میں معذور افراد کے بارے میں معلومات کے اندراج کا خانہ موجود ہی نہیں ہے۔ جبکہ فارم 2اے جس میں 33 مدات شامل ہیں، اس فارم میں معذور افراد کے بارے میں معلومات کے اندراج کا خانہ موجود ہے۔ فارم 2اے ہر گھرانے سے پر نہیں کروایا جائے گا بلکہ اس کے اعداد و شمار نمونہ بندی کے طریقہ کار  کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے۔ فارم 2اے  کے ذریعے معذور افراد کی کل آبادی کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں ہو پائے گا۔

کیا معذور افراد اس معاشرے کا حصہ نہیں ہیں کیا معذور افراد کے بارے میں اعداد و شمار کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا معذور افراد کے حوالے سے تعلیم، صحت، روزگار اور ٹرانسپورٹ کی پالیسی بنانا حکومت وقت کا اولین فرض نہیں ہے؟

1998 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 2.49 فیصد حصہ معذور افراد پر مشتمل تھا۔ جس میں سے صوبہ پنجاب میں 55.7 فیصد معذور افراد، 28.4 فیصد صوبہ سندھ، 11.1 فیصد صوبہ خیبر پختنواہ، 4.5 صوبہ بلوچستان اور 0.3 فیصد معذور افراد اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے۔

1998 کی مردم شماری کے بعد تقریباً 18 سال بعد مارچ 2017 میں چھٹی مردم شماری منعقد ہونے جا رہی ہے۔ پاکستان میں اس دوران معذور افراد کی تعداد بڑھ چکی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ملک بدترین دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ بم دھماکوں میں اموات کے علاوہ ہزاروں افراد اپنے قیمتی اعضاء سے بھی مرحوم ہو جاتے ہیں۔

ہڑھیے: معذور افراد سہولیات چاہتے ہیں، خیرات نہیں

2005 میں آنے والے بدترین زلزلے کی وجہ سے شمالی علاقہ جات کے ہزاروں افراد جس میں مرد، خواتین اور بچے شامل تھے، ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ کا شکار ہو گئے تھے۔ آئے دن ٹریفک اور ریل گاڑیوں کے حادثات کے باعث سینکڑوں افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 21 ویں صدی میں بھی پاکستان میں پولیو وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔

2002 میں قومی پالیسی برائے معذور افراد مرتب دی گئی، جس میں معذور افراد کی فلاح و بہود کے لیے عرصہ قلیل اور عرصہ طویل کی پالیسی اور پلان تجویز کیے گئے تھے، لیکن خود سوچیے اگر ملک میں موجود معذور افراد کے بارے میں درست اعداد و شمار معلوم نہیں ہوگا تو تمام پالیسی اور منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ جائیں گی۔

ڈیٹا یا اعدادو شمار کسی بھی منصوبہ بندی کا بنیاد ہوتے ہیں۔ معذور افراد کے درست اعدادوشمار کی فراہمی ان تمام پالیسیوں کی کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔

2012 میں معذور افراد کی جامع بحالی کے لیے منعقد قومی کانفرنس کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کی تعداد 50 لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔ جبکہ عالمی ادارہ برائے صحت WHO کے مطابق ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں معذور افراد کی تعداد 10 سے 15 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ 2011 میں حکومت پاکستان اقوام متحدہ کے تحت کنوینشن برائے حقوق معذوران کی توثیق کر چکا ہے۔

پڑھیے: حقوقِ معذورین: اسلام، مغرب اور پاکستان

آج دنیا معذوری سے متعلق میڈیکل ماڈل کو مسترد کر چکی ہے۔ دنیا کے تقریباََ تمام ممالک میں معذوری سے متعلق “معاشرتی ماڈل” پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ میڈیکل ماڈل کے مطابق معذور فرد کو اس کی معذوری کی بنا پر معذور قرار دیا جاتا تھا۔ معذوری کی بنا پر وہ روزمرہ کے کام نارمل انسان کی طرح سر انجام نہیں دے سکتے تھے۔

معاشرتی ماڈل کے مطابق معذور افراد کسی جسمانی خرابی کی وجہ سے معذور نہیں ہیں، بلکہ وہ اْن ماحولیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے معذور ہیں، جن کا تکلیفدہ سامنا انہیں دن رات کرنا پڑتا ہے۔ معاشرتی ماڈل کے مطابق معذور افراد کی فلاح وبہود کے لیے کمیونٹی کی بنیاد پر بحالی  ناگزیر ہے۔

معذور افراد کی جامع بحالی اور انہیں معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لیے تعلیم، صحت، روزگار، تعمیرات، ٹرانسپورٹ اور افرادی قوت کی منصونہ بندی میں اصلاحات کی ضرورت ہے ان تمام شعبہ جات میں منصوبہ بندی اْس وقت کامیاب ہوگی، جب معذور افراد کا درست اعدادوشمار موجود ہوگا۔

ترقی یافتہ ممالک مثلاََ آسٹریلیا، کینڈا، نیوزی لینڈ اور امریکہ میں معذور افراد کے حقوق کی پاسداری کے لیے غیر امتیازی قوانین  موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں معذور افراد کے حقوق کی پاسداری کے لیے سرے سے کوئی قانون موجود نہیں۔

صرف جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں 1981 میں بحالی و روزگار برائے معذوراں ایکٹ جاری ہوا تھا۔ جس کے تحت تمام نجی و سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا 1 فیصد کوٹہ معذور افراد کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ جو کہ آب 3 فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ باعزت روز گار کا انحصار تعلیم اور ہنر پر ہوتا ہے۔ معذور افراد اْسی وقت تعلیم اور ہنر یافتہ ہو سکتے ہیں جب ملک میں اْن کے لیے قابل رسائی تعلیمی ادارے اور قابل رسائی ٹرانسپورٹ موجود ہوگی۔

پڑھیے: معذور نہیں، منفرد بچے

ہمارے ملک میں معذور افراد پر خصوصی افراد کا خوبصورت لیبل چسپاں کر کے انہیں معاشرے سے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔ کیا اْن کی ضروریاتِ زندگی صرف ایک وہیل چیئر، سفید چھڑی یا صرف زکوۃ کے نام پر ادا کی جانی والی محدود رقم تک محدود ہے؟ معذور افراد نے ارباب اختیار کو احساس دلانے کے لیے کہ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں، سوشل میڈیا پر ایک مہم کا آغاز کر دیا ہے، جس کا ہیش ٹیگ  “ہمیں بھی شمار کرو” ہے۔

21 ویں صدی میں معذور افراد کو معاشرے کا کارآمد اور فعال فرد بنانے کے لیے حکومت وقت کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا اور معذور افراد کو مردم شماری کے فارم 2 کا حصہ بنا کر انہیں معاشی ترقی کے دھارے میں شامل کرنا موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

سائرہ ایوب لاہور کے ایک سرکاری کالج میں معاشیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ معذوری کے حوالے سے افسانے اور مضامین لکھتی رہتی ہیں اور معذوروں کے مسائل اور ان رکاوٹوں پر روشنی ڈالتی ہیں جن کی وجہ سے معذور حقیقتاً معذور بن جاتے ہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website