تحریر : وقار انسا
شاہ بانو میر اکیڈمی کے زیر اہتمام شائع ہونے والے میگزین درمکنون اور اکیڈمی کی رکن شاز ملک کی دو کتابوں کی تقریب رونمائی بہت یادگار رہے گی تقریب میں سفیر پاکستان جناب غالب اقبال کی شمولیت بطور مہمان خصوصی تھی ان کے ہمراہ سفارتخانہ سے ہیڈ آف چانسلری عمار امین صاحب نے بھی شرکت کی -ڈاکٹر سید تقی عابدی صاحب علم وادب کی دنیا کے آفتاب وماہتاب نے اپنی شرکت سے تقریب کی رونق کو دوبالا کر دیا ان شخصیات کی پر اثر وپر تاثیر باتوں نے سب کے ذہنوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیںجناب سفیر پاکستان نے اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو جس طرح نبھایا ہے موجودہ سفارتخانہ کا مکمل تبدیل شدہ ماحول اور نظام اس کی بہترین عکاسی کررہا ہے ناسازی طبع کے باوجود انہوں نہ صرف تقریب کو رونق بخشی بلکہ اپنے بہت اچھے خیالات سے بھی آگاہ کیا بلکہ خواتین کی اتنی بھر پور شرکت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شاہ بانو میر صاحبہ کو اپنی ساتھی خواتین کے ساتھ 23 مارچ کے پروگرام میں شرکت کی دعوت دے ڈالی۔
سفیر صاحب نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہاں ان سب خواتین کی شرکت اس سے زیادہ تعداد میں ہونی چاہیےجناب عمار امین صاحب نے بہت اچھی اور ہلکی پھلکی گفتگو کی اور سب کے کام ان کی باتوں پر بے اختیار سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئیشاہ بانومیر صاحبہ نے اکیڈمی کے قیام کی غرض وغایت بیان کی حوبصورت الفاظ میں اپنے معززمہمانوں کی کارکردگی کو سراہا اکیڈمی کی سب خواتین نے اپنے خیالات کا بڑی خوبصورتی سے اظہار کیا-جس میں وقارانسا نے اپنی لکھی ہوئی درمکنون کی تعارفی نظم کے ساتھ درمکنون دوم میں شامل نظم منزل مل ہی جاتی ہے بھی پڑھی اس کے ساتھ شازملک کی کتاب سے دل سمندر تو ھات صحرا بھی حاضرین کو سنائی نگہت سہیل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مطابقت سے خوبصورت قطعہ پیش کیا انیلہ احمد نے اس دن کے حوالے سے اپنی لکھی ہوئی نظم پڑھی شازملک نے اپنی کتاب سمندر تو ذات صحرا سے ابتدا میں لکھے ہوئے حمد کے اشعار پڑھے اور ڈاکٹر صاحب کے اصرار پر اپنی کتاب سے ہی اپنا پسندیدہ کلام پیش کیا۔
شازیہ شاہ نے شازملک کی کتاب دل سمندر تو ذات صحرا سے نظم بے بسی حاضرین کو سنائیاکیڈمی کی سب خواتین نے جیو کی طرف سے 2015 کے ایوارڈ کی نامزدگی پر شاہ بانو میر صاحبہ کو مبارکباد پیش کی جناب ڈاکٹر تقی عابدی صاحب کی باتوں کو خواتین اور بچیوں نے بہت انہماک سے سنا اس کا اندازہ اس بات سیبخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ماشا اللہ اتنے بڑے دورانیے کے پروگرام میں کسی نے اکتاہٹ کا اظہار کیا نہ ہی عجلت کا یوں لگتا تھا کہ سب ابھی مزید لطف انددوز ہونا چاہتے ہیں اس تقریب میں ڈاکٹر صاحب نے بھی اپنی نظم بچوں کی ہنسی سنائی – جس میں دنیا کے پریشان کن حالات دہشت گردی اور قتل وغارت سے ہونے والی تباہی کے پیش نظر ان کے معصوم ہونٹوں کی چھن جانے والی ہنسی کو بیان کیا جس سے وقتی طور پر سب افسردہ بھی ہو گئے سب کے بیحد اصرار پر انہوں نے اپنا اپنی پسند سے کچھ اشعار اور نظمیں بھی سنائیں۔
پروگرام کی انفرادیت یہ تھی کہ یہ چند خشک اور ثقیل باتوں کا مجموعہ نہ تھا بلکہ شاعری نے اس میں اس کو مزید خوبصورت رنگ بھر دیا ایمن حیات کی خوبصورت آواز کے سحر میں سب ہی گرفتار ہوگئے ملی نغمہ سنکر بے اختیار سب جھوم اٹھے کچھ توقف سے دوسرا ملی نغمہ بھی ایمن حیات نے سنایا جس پر ڈاکٹر صاحب نے ان کی آواز اورخوبصورت لب ولہجے سے ادائیگی کو بہت سراہا ڈاکٹر صاحب نے جس دلچسپی سے سب خواتین کو سنا وہ قابل تعریف ہےانہوں نے اکیڈمی کی بانی کے کام کی تعریف کرتے ہوئے اپنی ھم خیال خواتین کے ایک مرکز پر اکٹھا کرنے کی تعریف کی اور انہیں میر کارواں سالار کارواں جیسے خوبصورت القابات سے نوازا-اور ہنستے ہوئے کہا آپ تو شاہ بھی ہیں بانو بھی اور میر جب سامنے علم ادب کی پہچان اور ایک بڑا نام ہو جنہوں نے اس شعبہ میں تحقیق اور عرق ریزی سے بے شمار تصانیف سے اہل علم کی روحوں کو سیراب کیا ہو تو یہ سوچ بھی ھماری ہمت افزائی کے لئے کافی تھی کہ وہ ھمیں سن رہے ہیں۔
اپنی کیفیت اس بچے کی سی ہو رہی تھی جو مچل مچل کر اپنی بات کرنا چاہ رہا ہو-کیونکہ جب ڈاکٹر صاحب نے تعریف کرتے ہوئے کہا آپ لوگ اس ادارے کو ایک چھوٹا سا ادارہ یا اپنے کام کو ایک ادنی کاوش کیوں کہہ رہے ہیں جب کہ میرا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا ادارہ ہے جہاں ایسی خواتین ہیں انہوں نے کہا آپ حاضرین ان سب کی جو باتیں سن رہے ہیں وہ زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہیں اور یہ سننے سے تعلق رکھتی ہیں یہ باتیں آپ کو کتابوں سے نہیں ملیں گی انہوں نے مزید کہا کہ ایسی تقاریب میں میں جب بھی جاتا ہوں پوری توجہ سے سنتا ہوں بیٹھ کر نہیں اونگھتا۔
آج تو ہمارا بھی دل چاہ رہا تھا کہ کاش ہم مزید اپنے کچھ کالے کئے ہوئے کاغذ اٹھا لاتے اور ھماری ٹوٹی پھوٹی تحریر بھی یہاں پیش ہونے کے بعد معتبر ہو جاتی یہ تقریب اختتام پزیر ہو جائے کسی کا دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن مہماناں کی تشریف آوری پر شکریہ ادا کرتے ہوئے قومی ترانے پر اس کا اختتام ہوا۔
تحریر : وقار انسا