اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو نااہل قرار دینے کے لئے دائر درخواست مسترد کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے عمران خان اور جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے سے متعلق درخواستوں پر پہلے سے محفوظ فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ فیصلہ سنانے میں تاخیر پر چیف جسٹس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ڈرافٹنگ کی وجہ سے فیصلہ سنانے میں تاخیر ہوئی جس پر معذرت خواہ ہوں، فیصلہ تحمل سے سنیں، جب تک فیصلہ ہم سنا نہ دیں کوئی ردعمل نہ دے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ اثاثہ جات کے مطابق عمران خان کی کوئی بدنیتی ثابت نہیں ہوتی، بنی گالا کی جائیداد عمران خان کی ملکیت ہے، جو انہوں نے بیوی اور بچوں کے لئے خریدی، اس کے لیے انہوں نے جمائما سے قرض لیا۔ قرض کی رقم واپسی کے شواہد بھی عدالت میں دیئے گئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ عمران خان نا تو آف شور کمپنی کے شیئر ہولڈر تھے اور نا ہی ڈائریکٹر، ایمنسٹی اسکیم کے تحت عمران خان پر اثاثے ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دے دیا، عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ انہوں نے جائیداد خریدنے کے لئے 50 کروڑ روپے باہر منتقل کئے، رقم کی منتقلی جہانگیر ترین کو آف شور کمپنی کا بینیفشری ظاہر کرتی ہے، انہوں نے آف شور کمپنی اور اثاثے چھپا کر کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کی، جس پر انہیں ایماندار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ جہانگیر ترین کی اراضی کا معاملہ انکم ٹیکس کے پاس ہے، جہانگیر ترین نے ان ہاؤس ٹریڈنگ کا اعتراف کیا لیکن یہ سابقہ اور بند معاملہ ہے، ایس ای سی پی نے جہانگیر ترین کے خلاف فوجداری کارروائی نہیں کی بلکہ یہ معاملہ خود ختم کیا۔ ان کے بینکوں سے قرضے معاف کرانے کے شواہد بھی نہیں ملے۔
عدالتی فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کا 99 فیصد فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں جب کہ ایک فیصد فیصلہ خلاف آیا ہے، آج کے فیصلے نے بتا دیا کہ عمران خان کی ایک ایک چیز واضح ہے، نئے پاکستان کی منزل اب بہت قریب ہے، سپریم کورٹ نے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے خلاف درخواستوں کو خارج کردیا جب کہ جہانگیر ترین پر 3 الزامات تھے جن میں سے ایک پر انہیں نااہل قرار دیا ہے۔ تحریک انصاف جہانگیر ترین کے خلاف فیصلے پر نظر ثانی اپیل دائر کرے گی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد درخواست گزار حنیف عباسی نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ پڑھ کر رائے کا اظہار کریں گے۔ وفاقی وزیر دانیال عزیز نے کہا کہ نواز شریف کے کیس میں 1962 تک چلے گئے، کیا نواز شریف اہل نہیں تھے کہ انہیں بھی پانچ سال کا ریلیف دے دیتے۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس فیصلے نے پاناما فیصلے کے معیار کی نفی کی ہے، جو پاکستان کے آئین، سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو گالی دیتا ہے اس کے لئے تمام چیزیں حلال، دوسری طرف جو تنخواہ وصول ہی نہیں کی اس پر نااہلی، ایک قانون کے دو ترازو نہیں ہو سکتے۔ یہ کیس ابھی ختم نہیں ہوا، پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کا کیس الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا ہے، وہاں سے فیصلہ ابھی آنا ہے۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے آف شور کمپنیاں چھپانے پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے دو درخواستیں دائر کی تھیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایک سال سماعت کے بعد 14 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔