سیانے کہتے ہیں کہ جب وکٹ پہ گھاس ہو تو عقل کی بھوک کسی اور شے سے مٹا لینی چاہیے مگر ہم سیانوں کی سنتے ہی کب ہیں۔
چلیں سیانوں کی نہ سنیے، یہ تو کم از کم ذہن میں رکھ لیجیے کہ بھئی یہ دوبئی کی ہومیو پیتھک وکٹ نہیں ہے جہاں آپ نزاکت سے بلے لہراتے رہیں گے اور گیند کور باونڈری کا راستہ ناپتی رہے گی۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ جب پہلا ایک گھنٹہ احتیاط اور تحمل کے آسرے گزار ہی لیا تھا تو اچانک کون سی افتاد پڑ گئی کہ آف سٹمپ کے باہر جاتی ہر گیند کے ساتھ اٹکھیلیاں کرنا ہماری مجبوری ٹھہرا۔
سچ پوچھئے تو اظہر علی کو کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہو گی۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب ساوتھی، بولٹ اور گرانڈ ہوم بالکل بے ضرر دکھائی دینے لگے تھے اور کین ولیمسن کے چہرے پہ مایوسی نمایاں ہونے لگی تھی تب اظہر علی ان کے دکھوں کا مداوا بن کر سامنے آئے۔ وہ بارش کا پہلا قطرہ بنے، پھر اس کے بعد سبھی نے بھر پور ایثار کا مظاہرہ کیا اور کیوی امیدوں کے چراغ میں اپنے اپنے حصے کا تیل ڈالا۔
یہ کیسا انوکھا ریکارڈ ہے کہ جس وکٹ پہ بولروں کو اچھی بولنگ سے ہیرو بننا تھا، اس پہ پاکستان نے اپنی باکمال بیٹنگ سے انہیں ہیرو بنا دیا۔
پہلا ایک گھنٹہ گزر گیا، ساوتھی سے گیند کنٹرول نہیں ہو رہا تھا، بولٹ کو ہر برے گیند پہ مار پڑ رہی تھی، گرانڈ ہوم کو وکٹ سے جس مدد کی امید تھی، وہ نہیں مل رہی تھی۔ اور جب یہ سب دکھائی دیا تو ہم نے ماحولیاتی تقاضوں کے عین مطابق ریلیکس ہونا شروع کر دیا۔
اگر آپ کو یہ سب تعریف بے جا لگے تو ذرا اس گیند پہ غور کیجئے جس پہ اظہر علی نے اپنی وکٹ کا نذرانہ پیش کیا۔ اپنے کرئیر کا پہلا میچ کھیلنے والے گرانڈہوم نے جب دو گیندیں باہر کی جانب سیم کی تو اظہر علی نے اپنے تمام تر تجربے کی روشنی میں خود ہی طے کر لیا کہ یہ نیا بولر اگلی گیند بھی بالکل اسی لائن اور لینتھ پہ پھینکے گا۔
اور جب یہ طے پا ہی چکا تو پھر کیا گیند کو دیکھنا اور کیا پاوں کو ہلانا۔ کسی خود کار نظام کے تحت بلے کا رخ کور کی جانب ہوا اور گیند کے قریب آنے سے پہلے ہی بلا گھوم گیا۔ پھر کچھ دیر بعد گیند آئی، بلے اور پیڈ کے درمیان موجود خلیج بنگال میں سے یوں دھیرے دھیرے گزری کہ پہلے اگلے پیڈ کو چھوا، پھر پچھلے پیڈ سے سلام دعا کی اور بالآخر آف سٹمپ سے بغل گیر ہوئی۔۔۔
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
وہ ٹیم کہ جس کی شان میں سبھی کیوی کمنٹیٹرز پچھلے ایک گھنٹے سے قصیدے پڑھ رہے تھے اب ایسی دکھائی دے رہی تھی جیسے کوئی نا تجربہ کار کلب لیول کی ٹیم بلاوجہ کسی خونخوار بولنگ اٹیک کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ مصباح کے سوا سبھی بیٹسمین اپنے اپنے فیورٹ شاٹ کھیلنے کے لالچ میں میدان بدر ہوئے۔
کیا یونس اور کیا اسد شفیق، سبھی کے سر پہ بھوت سوار تھا یہ ثابت کرنے کا کہ اس وکٹ پہ ٹانگ ہلائے بغیر ان سے اچھی ڈرائیو کوئی نہیں کھیل سکتا۔ کیوی بولرز نے ڈسپلن کے لحاظ سے بہت اچھی بولنگ کی مگر کوالٹی کے اعتبار سے یہ اتنا خطرناک اٹیک نہیں تھا جتنا خطرناک اسے پاکستان نے اپنی بے صبری سے بنا دیا۔
ہمارا پلان شاید یہ تھا کہ پہلا ایک گھنٹہ احتیاط سے کھیلا جائے اور پھر اسی طرح سے جیسے ہم کھیلا کرتے ہیں۔ لیکن ہم نے یہ دیکھنا گوارا نہیں کیا کہ جب نیم گیلی وکٹ پہ سے بادل چھٹنے اور دھوپ پڑنے لگے تو وکٹ سخت ہونے سے اچانک گیند سیم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اس کے مطابق گیم پلان میں تبدیلی ضروری ہو جاتی ہے۔
کیویز نے اسی خامی کا فائدہ اٹھایا اور سبھی بیٹسمینوں کو ان کے کمفرٹ زون میں لا کر آوٹ کیا۔
سمیع اسلم بیک فٹ پہ ڈیفینڈ کرتے کرتے شرارت کر بیٹھے، اظہر علی، بابر اعظم، یونس خان اور اسد شفیق ڈرائیو کے چکر میں پکڑے گئے، سرفراز اور عامر کٹ کے شوقین پائے گئے۔ مصباح ایک اچھی اننگز کھیل کر بھی ان سب کا غم نہ بھول پائے اور کاونٹر اٹیک کرتے کرتے خود شکار ہو گئے۔
اگر تھوڑا سا صبر کا مظاہرہ کر لیا جاتا اور دھوپ نکلنے تک اپنی خواہشات پہ قابو پا لیا جاتا تو اسی وکٹ پہ ڈھائی سو رنز آسانی سے ہو سکتے تھے۔ جہاں 40 اوور بعد بھی گیند پرانا نہیں ہوا وہاں جب وکٹ قدرے خشک ہوئی تو جیت راول بھی کٹ اور ہک کھیلتے دکھائی دیے۔
بجا کہ ہمیں کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے کا موقع نہیں ملا، پریکٹس میچ بھی بارش کی نذر ہو گیا۔ کرائسٹ چرچ کی بارش زدہ گرین ٹاپ پہ ٹاس ہارنا بھی مہنگا پڑا مگر چیمپئینز کہلانے والے جواب دیا کرتے ہیں، جواز نہیں۔