’’ تبدیلی ‘‘ کا دور ہے سو جماعت اسلامی پاکستان میں’ بھی ’ تبدیلی ‘‘ آگئی ہے۔ یہ جماعت اسلامی میں بڑی تبدیلی ہے لیکن جماعت اسلامی میں کمال کا نظم دیکھنے میں آیا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے اپنے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کو نائب امیر کی ’’کرسی ‘‘پر بٹھا دیا لیکن انہوں نے اپنے ماتھے پر بل لائے بغیر’’ ہنستے مسکراتے ‘‘ نئی ذمہ داری قبول کر لی جماعت اسلامی کے امیر کا انتخاب ووٹ کی پرچی سے ہوتا ہے لیکن جب کوئی امیر جماعت اسلامی منتخب ہو جاتا ہے تو اسے بے پناہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ امیر جماعت کے سامنے ہر رکن ’’سرتسلیم خم ‘‘ کر دیتا ہے لیکن امیر جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اسے ہٹا بھی سکتی ہے۔ قاضی حسین احمد کو راجا ظہیر احمد کی تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا جو انہوں نے بحث کے بعد واپس لے لی تھی ۔ کسی اور جماعت میں شاید ہی ایسا ڈسپلن دیکھنے میں آیاہو۔
میرے دوست انجم حفیظ قریشی جن کا پورا خاندان حجاج کی فلاح و بہود میں مصروف رہتا ہے نے کہا ہے کہ ’’جماعت اسلامی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جہاں ہر رکن کے دل و دماغ میں ’’اطاعت امیر‘‘ رچی بسی ہوتی ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے جماعت اسلامی پچھلے 80 سال سے قائم و دائم ہے لیکن پارلیمانی میدان میں اس کا حجم سکڑتے سکڑتے قومی اسمبلی کے ایک رکن تک رہ گیا ہے۔ یہ بھی ایک سیاسی المیہ ہے۔ پاکستان کی سب زیادہ منظم جماعت دن بدن عوام میں مقبولیت کیوں کھو رہی ہے ؟ لیاقت بلوچ کا شمار جماعت اسلامی کے ان رہنمائوں میں ہوتا ہے جو 1985ء میں پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر کئی بارقومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر ایک ’’دبنگ پارلیمنٹیرین‘‘ کے طور پر شہرت پائی ۔ جماعت اسلامی میرا پہلا ’’عشق‘‘ ہے لہٰذا میں بہت سی اندر کی باتوں پر کھل کر لکھنے سے گریز کرتا ہوں تاہم محتاط انداز میں اپنے دل کی بات ضبط تحریر لانے کی جسارت کرتا رہتا ہوں ۔ میں واحد اخبار نویس ہوں جس نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کو تبدیل کئے جانے کا’’ اشاروں کنایوں ‘‘ انکشاف کر دیا تھا ۔ سراج الحق ابھی سعودی عرب کے دورے پر تھے تو مجھے جماعت اسلامی کے ایک’’ ذمہ دار‘‘ نے ’’ رازداری ‘‘ سے بتا دیا تھا کہ جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔
جماعت اسلامی میں لیاقت بلوچ ایک بڑا نام ہے۔ ملکی سیاست میں ان کے جاندار کردار نے ان کو قومی رہنما کی حیثیت دے دی ہے جو عہدوں کے رد وبدل سے ختم نہیں ہو سکتی۔ وہ جماعت اسلامی کی پہچان بن گئے ہیں اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ وہ اور جماعت اسلامی لازم ملزوم بن گئے۔ جب سید منور حسن نے امارت کا منصب سنبھالا تو جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے امیر العظیم کا نام سیکریٹری جنرل کے طور تجویز کیا تھا تو امیر العظیم نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کر لی تھی اسی طرح جب سراج الحق نے پہلی امارت کا منصب سنبھالا تو وہ بھی اپنا نیا سیکریڑی جنرل لانا چاہتے تھے لیکن ان کے عزائم میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ حائل ہو گئی اور مرکزی مجلس شوریٰ نے دوسری ٹرم کے لئے بھی لیاقت بلوچ کو ذمہ داری سونپ دی ، لیاقت بلوچ نے جماعت اسلامی کے اندر بڑا سیاسی قد کاٹھ رکھنے والی شخصیت ہونے کے باوجود ہمیشہ ’’اطاعت امیر‘‘ کی شاندار مثال قائم کی ہے ۔4بار امیر جماعت اسلامی کی دوڑ میں شریک ہونے کے باوجود ’’ہما‘‘ ان کے سرپر نہیں بیٹھا ۔ لیاقت بلوچ مرنجاں مرنج شخصیت ہیںخوش گفتاری ان کا طرہ امتیاز ہے وہ اپنے بے داغ سیاسی کیرئیر کی وجہ سے جماعت اسلامی کے اندر اور باہر قدر کی نگا ہ دیکھے جاتے ہیں۔ اگرچہ جماعت اسلامی کے 39ہزار ارکان پر مشتمل ’’انتخابی کالج ‘‘ نے ووٹ کی پرچی سے سینیٹر سراج الحق کے سر پر دوسری بار امیر کا ’’تاج‘‘ سجایا ہے لیکن انہوں نے سیکریٹری جنرل کے منصب پر بڑی قد کاٹھ کی حامل شخصیت کی بجائے قدرے جونیئر لیڈر کے ساتھ چلنے کو ترجیح دی۔ لیاقت بلوچ مسلسل 10سال سیکریٹری جنرل رہے ہیں۔ چنانچہ ان کی شخصیت کی جماعت اسلامی پر گہری چھاپ ہے ۔ جب امیر العظیم کا نام سیکریٹری جنرل کے طور پر پکارا گیا تو وہ ’’احساس ذمہ داری‘‘ سے بڑی دیر تک زارو قطار روتے رہے۔ وہ اس قدر روئے کہ ان کے لئے حلف اٹھانا مشکل ہو گیا۔ انہوں نے خوش دلی سے نہیں رنجیدہ حالت میں لیاقت بلوچ کی جگہ منصب سنبھالا کیونکہ جماعت اسلامی میں عہدوں کے حصول کے لئے کوشش نہیں کی جاتی بلکہ ’’ احساس ذمہ داری اور خوف خدا‘‘ سے انسان کانپ کانپ جاتا ہے ۔ اگرچہ سینیٹرسراج الحق نے جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے مشورے سے نئے عہدیداروں کی تقرری ہے لیکن کئی دنوں سے سیکریٹری جنرل تبدیل کئے جانے کی بات چل رہی تھی۔ انہوں نے لیاقت بلوچ، پروفیسر محمد ابراہیم، راشد نسیم، اسد اللہ بھٹو، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، میاں محمد اسلم، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی اور عبدالغفار عزیز پر مشتمل نائب امراء کی’’ فوج ظفر موج ‘‘ کی تقرری کر دی ہے سینیارٹی میں لیاقت بلوچ کو سب سے پہلے رکھا گیا۔ وہ ماضی میں بھی قائم مقام امیر جماعت اسلامی کے فرائض انجام دے چکے ہیں حافظ محمد ادریس اور پروفیسر خورشید احمد نے علالت کے باعث کوئی ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کر لی ہے ۔ 60سالہ امیر العظیم نے ایک نئے جذبے کے تحت سیکرٹری جنرل کا منصب سنبھالا ہے ۔ وہ ملک کی جانی پہچانی سیاسی شخصیت ہیں انہوں نے ایک سیاسی شخصیت کی جگہ لی ہے جو جماعت اسلامی کی پہچان بن چکی ہے۔ امیر ا لعظیم ا س سے قبل امیر جماعت اسلامی وسطی پنجاب کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے تھے- امیر العظیم کا پنجاب کے ایک متوسط لیکن پڑھے لکھے گھرانہ سے تعلق ہے – ان کے والدین پٹیالہ سے لاہور منتقل ہوئے تھے۔
امیر العظیم کی پیدائش 1958 میں ایوب کے مارشل لا دور میں لاہور میں ہوئی- انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول سنت نگر اور پھر ایف ایس سی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے کی ۔اسی دوران وہ اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے اور پھر اپنی پوری زندگی اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے لئے وقف کر دی- انہوں نے ایم بی اے پنجاب یونیورسٹی سے کیا اور وہ پنجاب یونیورسٹی طلبہ یونین کے صدر رہے۔ جنرل ضیاالحق نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کی تو امیر العظیم سمیت اسلامی جمعیت طلبہ کے کئی راہنماوں کو گرفتار کرلیا گیا ۔ دوران گرفتاری امیرالعظیم کو اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا ناظم اعلی منتخب کرلیاگیا۔جب قاضی حسین احمد جماعت اسلامی پاکستان کے امیر بنے تو انہوں نے امیر العظیم کو جماعت اسلامی پاکستان کا سیکرٹری اطلاعات مقرر کیا۔اس کے بعد و ہ دوبار جماعت اسلامی لاہور کے امیر اور جماعت اسلامی پنجاب کے نائب امیر رہے – ان کی جگہ نوجوان اور تازہ دم قیصر شریف کو سیکریٹری اطلاعات مقرر کر دیا گیا۔ امیر العظیم نے کہا ہے کہ’’ ان کی تعلیم و تربیت اور رہنمائی و نظم میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی نے اہم کردار ادا کیا- اسلامی جمعیت طلبہ نے ہی انہیں پڑھنے لکھنے کا ذوق پیدا کیا جبکہ جماعت اسلامی کی خدمات کے ساتھ ساتھ انہوں نے کاروباری طور پر اپنا کیریئر ایڈورٹائزنگ سے وابستہ کر رکھا ہے ۔انہوں نے متعدد بار جماعت اسلامی پاکستان کے پلیٹ فارم سے قومی انتخابات میں بھی حصہ لیا ہے تاحال وہ پارلیمنٹ میں قدم رکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔مزاج کے اعتبار سے امیر العظیم مسلم لیگ (ن) سے بہت دور ہیں۔ اب جماعت اسلامی کی باگ ڈور ان لوگوں کے پاس آگئی ہے جو جماعت اسلامی کو مسلم لیگ(ن) سے دور رکھنا چاہتے ہیں جبکہ لیاقت بلوچ مسلم لیگ (ن) کے قریب تصور کئے جاتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کے سامنے سب سے بڑا ٹارگٹ اس کا شاندار ماضی لوٹانا ہے جماعت اسلامی کا ماضی واپس لوٹانا بڑا چیلنج ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق ایک متحرک لیڈر ہیں جو ملک بھر میں شہر شہر سفر کر کے رابطہ عوام مہم چلا رہے ہیں وہ ایک درویش صفت رہنما ہیں۔ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے لیکن تاحال مرکزی مجلس شوریٰ کے نام اپ ڈیٹ نہیں کئے گئے کئی مہینوں بعد زبیر فاروق کا نام ویب سائٹ سے ہٹایا جب کہ ان کو جماعت اسلامی چھوڑے ہوئے کم و بیش ایک سال ہو گیا ہے۔ اسی طرح اب بھی ویب سائٹ پر مرکزی مجلس شوری کے پرانے ارکان کے نام ہیں۔ امیر العظیم سب سے پہلے زبیر فاروق جیسے ’’ناراض ‘‘ ارکان کو جماعت اسلامی میں واپس لانے کی کوشش کریں۔